تنازعہ مقدونیہ کے نام کا، لیکن حکومتی بحران یونان میں
13 جنوری 2019
یونان میں ہمسایہ ملک مقدونیہ کے نام کی وجہ سے پائے جانے والے شدید سیاسی تنازعے کے باعث ایک بڑا حکومتی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ یونانی وزیر دفاع اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں اور ان کی پارٹی مخلوط ملکی حکومت سے نکل گئی ہے۔
مقدونیہ میں یونان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی عوامی منظوری کی خاطر ایک ریفرنڈم بھی کرایا گیا تھا، جس کے انعقاد کی بہت سے مقامی باشندوں نے مخالفت بھی کی تھیتصویر: DW/D. Tosidis
اشتہار
یونان کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور ملکی وزیر دفاع پانوس کامینوس نے آج اتوار تیرہ جنوری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم الیکسس سپراس کی قیادت میں ایتھنز میں موجودہ مخلوط ملکی حکومت سے اپنی علیحدگی کا یہ اعلان ایک مجوزہ پارلیمانی رائے شماری سے کچھ عرصہ پہلے کیا۔
یہ رائے شماری یونان اور سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ کے مابین پائے جانے والے اس طویل تنازعے سے متعلق ہے، جو بلقان کے خطے کی ریاست مقدونیہ کے نام کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور جو عشرے گزر جانے کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
کامینوس کی پارٹی بھی حکومت سے نکل گئی
وزیر اعظم سپراس کے ساتھ اتوار کے روز ایک ملاقات کے بعد اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے پانوس کامینوس نے ایتھنز میں کہا، ’’مقدونیہ کے نام سے متعلق تنازعے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنے حکومتی عہدے کی قربانی دے دوں۔‘‘
پانوس کامینوس نے مزید کہا، ’’میں نے وزیر اعظم سپراس کو بتا دیا ہے کہ اس قومی مسئلے کی وجہ سے میں وزیر دفاع کے طور پر اب مزید اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ ہماری جماعت بھی مخلوط حکومت سے نکل رہی ہے۔‘‘ کامینوس یونان میں قوم پسندوں کی ’آزاد یونانیوں کی جماعت‘ یا ANEL نامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
مستعفی ہو جانے والے وزیر دفاع پانوس کامینوس، بائیںتصویر: Reuters/A. Konstantinidis
حکومت پر دوبارہ اظہار اعتماد کی قرارداد
اس صورت حال نے یونانی وزیر اعظم سپراس کے لیے پارلیمان میں ان کی حکومت کے لیے کافی تائید سے متعلق کئی سوالات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اسی لیے سپراس نے اتوارکی دوپہر ایتھنز میں کہا، ’’میں اسی ہفتے پارلیمان سے درخواست کروں گا کہ ملکی پارلیمنٹ میں میری حکومت پر نئے سرے سے اظہار اعتماد کے لیے رائے شماری کرائی جائے۔‘‘
ساتھ ہی الیکسس سپراس نے اب تک وزیر دفاع کے فرائض انجام دینے والے کامینوس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اعلان کیا کہ وہ ملکی مسلح افواج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین اور بحریہ کے ایڈمرل ایوانگیلوس آپوستولاکِس سے کہیں گے کہ وہ وزیر دفاع کے فرائض بھی سنبھال لیں۔
نام کا تنازعہ ہے کیا؟
مقدونیہ یونان کا ایک علاقہ بھی ہے اور اسی نام کی سابق یوگوسلاویہ کی ایک ریاست بھی ہے، جو اب ایک آزاد ملک ہے۔ اس ملک کے نام سے متعلق سکوپیے حکومت کا ایتھنز کے ساتھ عشروں پرانا تنازعہ گزشتہ برس نومبر میں ایک باقاعدہ لیکن متنازعہ معاہدے کے ساتھ حل تو ہو گیا تھا تاہم پانوس کامینوس کی سیاسی جماعت عرصے تک اس معاہدے کے خلاف ہی رہی تھی۔
یونان میں کن ممالک کے مہاجرین کو پناہ ملنے کے امکانات زیادہ؟
سن 2013 سے لے کر جون سن 2018 تک کے عرصے میں ایک لاکھ 67 ہزار تارکین وطن نے یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے حکام کو اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
1۔ شام
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
تصویر: UNICEF/UN012725/Georgiev
2۔ یمن
پناہ کی تلاش میں یونان کا رخ کرنے والے یمنی شہریوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور وہ اس حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یونانی حکام نے یمن سے تعلق رکھنے والے 97.7 فیصد تارکین وطن کی جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: DW/A. Gabeau
3۔ فلسطین
یمن کی طرح یونان میں پناہ کے حصول کے خواہش مند فلسطینیوں کی تعداد بھی زیادہ نہیں ہے۔ سن 2013 سے لے کر اب تک قریب تین ہزار فلسطینی تارکین وطن نے یونان میں حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ فلسطینی تارکین وطن کو پناہ ملنے کی شرح 95.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
4۔ اریٹریا
اس عرصے کے دوران یونان میں افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جمع کرائی گئی پناہ کی کامیاب درخواستوں کی شرح 86.2 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ٰ5۔ عراق
عراق سے تعلق رکھنے والے قریب انیس ہزار تارکین وطن نے مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ عراقی شہریوں کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب ستر فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
6۔ افغانستان
یونان میں سن 2013 کے اوائل سے جون سن 2018 تک کے عرصے کے دوران سیاسی پناہ کی قریب بیس ہزار درخواستوں کے ساتھ افغان مہاجرین تعداد کے حوالے سے تیسرے نمبر پر رہے۔ یونان میں افغان شہریوں کی کامیاب درخواستوں کی شرح 69.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/S. Nabil
7۔ ایران
اسی عرصے کے دوران قریب چار ہزار ایرانی شہریوں نے بھی یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ ایرانی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح 58.9 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
8۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے قریب پانچ ہزار تارکین وطن نے یونان میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح محض 3.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/NurPhoto/N. Economou
9۔ پاکستان
پاکستانی شہریوں کی یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد شامی مہاجرین کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ جنوری سن 2013 سے لے کر رواں برس جون تک کے عرصے میں 21 ہزار سے زائد پاکستانیوں نے یونان میں پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائیں۔ تاہم کامیاب درخواستوں کی شرح 2.4 فیصد رہی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
10۔ بھارت
پاکستانی شہریوں کے مقابلے یونان میں بھارتی تارکین وطن کی تعداد بہت کم رہی۔ تاہم مہاجرت سے متعلق یونانی وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق محض 2.3 فیصد کے ساتھ بھارتی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح پاکستانی شہریوں سے بھی کم رہی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Eurokinissi
10 تصاویر1 | 10
اس معاہدے کے مطابق سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ کا نیا نام اب جمہوریہ شمالی مقدونیہ طے ہو چکا ہے۔ مقدونیہ اور یونان کے مابین اس متنازعہ معاہدے کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا تھا کہ جمہوریہ شمالی مقدونیہ کو اب مستقبل میں ممکنہ طور پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت دی جا سکے گی۔
دوہری پارلیمانی توثیق
سکوپیے میں مقدونیہ کی پارلیمان نے جمعہ 11 جنوری کو اس معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے اس سلسلے میں ملکی آئین میں ضروری ترمیم کی منظوری بھی دے دی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مقدونیہ اپنا یہ نیا نام صرف اسی وقت استعمال کرنا شروع کرے گا، جب ایتھنز میں یونانی پارلیمان بھی اس معاہدے کی توثیق کر دے گی۔
یونانی پارلیمانی میں اس موضوع پر رائے شماری اسی مہینے ہونا ہے لیکن اب اس سے پہلے ہی اس معاہدے کے مخالف سیاستدان اور وزیر دفاع پانوس کامینوس مستعفی ہو گئے ہیں۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
اسکندر اعظم اور تہذیبی میراث
کامینوس نے گزشتہ سال کے آخری مہینوں کے دوران کئی بار یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ مقدونیہ کے نام سے متعلق ایتھنز کی پارلیمان میں رائے شماری سے پہلے ہی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ان کے بقول سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ یا اب جمہوریہ شمالی مقدونیہ کے نام میں مقدونیہ کے لفظ کا استعمال یونان کے لیے اس وجہ سے قابل قبول ہے ہی نہیں کہ مقدونیہ ناقابل تنسیخ انداز میں یونانی شناخت، تاریخ، ثقافت اور تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔
زمانہ قبل از مسیح کے عظیم یونانی فاتح اسکندر اعظم کا تعلق بھی مقدونیہ ہی سے تھا اور یہ بات آج بھی بہت سے یونانیوں کے لیے قومی فخر کا باعث ہے۔ لیکن ساتھ ہی جمہوریہ شمالی مقدونیہ کی قومی شناخت میں بھی اسکندر اعظم کے نام سے جڑی یہی تاریخی میراث مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
م م / ا ا / اے پی، اے ایف پی
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔