1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تنسیخِ نکاح: کیا عورت کے لیے قانونی راستہ آسان ہوا ہے؟

31 اکتوبر 2025

سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں نفسیاتی تشدد یا ذہنی اذیت کو بھی علیحدگی کی ایک جائز اور ٹھوس بنیاد قرار دیا ہے۔ کیا خواتین کے لیے قانونی راستہ ماضی کی نسبت آسان ہوا ہے؟

ازدواجی تعلق کے خاتمے کے بعد خواتین کے لیے سب سے اہم اور فوری سوال مالی تحفظ کا ہوتا ہے
ازدواجی تعلق کے خاتمے کے بعد خواتین کے لیے سب سے اہم اور فوری سوال مالی تحفظ کا ہوتا ہےتصویر: Ritesh Shukla/imago images

پاکستان کے خاندانی قوانین تنسیخ نکاح اور خلع کو عورت کا ایک باوقار حق تسلیم کرتے ہیں مگر یہ سفر ہمیشہ اتنا ہموار نہیں رہا۔ ماضی میں خواتین کو شادی ختم کرنے کے لیے نہ صرف سماجی دباؤ بلکہ قانونی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔ ازدواجی تعلق کے خاتمے کے بعد خواتین کے لیے سب سے اہم اور فوری سوال مالی تحفظ کا ہوتا ہے۔ علیحدگی کے بعد کیا انہیں اپنے حق مہر سے دستبردار ہونا پڑے گا یا وہ اسے برقرار رکھ سکتی ہیں؟ یہ سوال بظاہر سادہ لگتا ہے، لیکن دراصل پیچیدہ اور مسلسل تبدیل ہوتا معاملہ ہے۔

طلاق، تنسیخ نکاح اور خلع: علیحدگی کے تین قانونی راستے

پاکستان کے خاندانی قوانین میں شادی کے خاتمے کے تین راستے ہیں: طلاق، تنسیخ نکاح اور خلع۔ طلاق مرد کا یک طرفہ حق ہے جسے استعمال کرنے کے بعد وہ عورت سے حق مہر واپس نہیں لے سکتا۔ لیکن شوہر کے بجائے بیوی علیحدگی چاہتی ہو تو قانون کیا کہتا ہے؟

شریعہ اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جنرل  ڈاکٹر محمد منیر کے مطابق، ”ڈِزولوشن آف مسلم میریجز ایکٹ‘ کے تحت ایک مسلمان عورت اس وقت طلاق حاصل کر سکتی ہے جب اس کا شوہر چار سال تک لاپتہ رہے، دو سال تک نان و نفقہ ادا نہ کرے، سات سال یا اس سے زیادہ عرصے کے لیے قید ہو جائے، تین سال تک ازدواجی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے، شوہر نامرد، ذہنی مریض یا بیوی کے ساتھ بدسلوکی کرے۔"

پاکستان میں طلاق دینے کی نسبت خلع لینےکا عمل پیچیدہ کیوں؟

اگر بیوی ان میں سے کسی جرم کے ٹھوس ثبوت فراہم کرے تو عدالت نکاح کے خاتمے کا حکم دے سکتی ہے۔ اس صورت میں عورت کو اپنا حق مہر واپس نہیں کرنا پڑتا، اسے تنسیخ نکاح کہتے ہیں۔

پاکستان میں خواتین کے بنیادی حق کے طور پر خلع اور تنسیخِ نکاح کو تسلیم کرنے میں سماجی اور قانونی دونوں سطحوں پر صورتحال بہتر ہوئی ہےتصویر: Mudassar Shah

'اسلامی قوانین اور پاکستان کے عدالتی نظام میں خلع کا قانون‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں ڈاکٹر منیر لکھتے ہیں، تنسیخ نکاح کے لیے ”شکایت کرنے والی بیوی کو شوہر کی غلطی یا جرم کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ ازدواجی زیادتی یا شوہر یا اُس کے گھر والوں کی بدسلوکی جیسے الزامات ثابت کرنا عملی طور پر انتہائی مشکل ہے کیونکہ یہ سب کچھ گھریلو دائرے میں ہوتا ہے اور عموماً گواہ بھی عورت کے حق میں گواہی دینے سے کتراتے ہیں۔"

ان کے مطابق، ”اس لیے برصغیر اور مسلم دنیا میں ایک ایسے حل کی سخت ضرورت محسوس کی گئی جو قصور ثابت کیے بغیر عورت کو علیحدگی کا حق دے۔ خلع اس مسئلے کا ایک ممکنہ جواب دکھائی دیا۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ممتاز قانون دان ڈاکٹر محمد مشتاق کہتے ہیں، ”خلع، اسلامی فقہ کی اصطلاح ہے، جس میں بیوی اپنے مطالبے پر نکاح ختم کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”ہمارے عدالتی نظام نے خلع کا ایک ایسا تصور متعارف کرایا جس میں شوہر کی رضا مندی ضروری نہیں رہی، تاکہ خواتین کو آسانی ہو اور تنسیخ نکاح میں شوہر کے جرم کو ثابت کرنے کی مشکل سے نجات ملے۔ یہ سہولت بعد میں کئی قانونی پیچیدگیوں کا سبب بنی۔"

عدالتی خلع: برطانوی قانون سے جدید تعبیر تک

برصغیر میں خلع کا تصور طویل عرصے تک مرد کی رضامندی سے مشروط رہا۔ برطانوی نوآبادیاتی عدالتوں نے یہی اصول اپنائے رکھا کہ خلع باہمی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں۔

ڈاکٹر منیر نے اپنے تحقیقی مقالے میں کئی مثالیں پیش کی ہیں جب پاکستانی عدالتوں نے ابتدائی برسوں میں شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع دینے سے انکار کیا۔

حق مہر پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم

ان کے مطابق بعد میں عدالت نے اجتہاد سے کام لیا اور خلع کی جدید تعبیر پیش کی جس کی اولین مثال سن 1959 کا مقدمہ بلقیس فاطمہ بنام نجم‌الاکرام قریشی تھا۔

وہ لکھتے ہیں لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ کے سامنے سوال یہ تھا کہ، ”کیا بیوی اس صورت میں نکاح کے خاتمے کی حقدار ہو سکتی ہے کہ شوہر کو وہ تمام چیزیں واپس کر دے جو اسے نکاح کے عوض ملی تھیں؟‘‘

عدالت نے اس سوال کا جواب اثبات میں دیا۔

اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے عدالت نے مولانا مودودی کی رائے پر انحصار کیا جن کا موقف تھا، ''بیوی کا خلع  کا حق مرد کے حقِ طلاق کے برابر ہے۔ جیسے طلاق کے لیے کسی شرط کی ضرورت نہیں، ویسے ہی خلع بھی غیر مشروط حق ہے۔"

یہ پہلی بار تھا کہ عدالت نے تسلیم کیا کہ عورت اگر شوہر کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتی تو عدالت خلع دے سکتی ہے، خواہ شوہر راضی نہ ہو۔

پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟

03:47

This browser does not support the video element.

اس کے بعد سن 1967 کا تاریخی مقدمہ خورشید بی بی بنام بابو محمد امین آیا جس میں لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ خلع عورت کا حق ہے جو قرآن سے ماخوذ ہے اور اگر زوجین حدودِ الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو عدالت شادی ختم کر سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس فیصلے نے پاکستان میں عورت کو ازدواجی زندگی سے نکلنے کا ایک آزاد اور باوقار قانونی راستہ دیا۔

ڈاکٹر مشتاق خلع کی جدید عدالتی تعبیر سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ شرعی نقطہ نظر کے علاوہ ایک اہم قانونی پیچیدگی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں جس کا مقصد خواتین کو سہولت فراہم کرنا تھا مگر وہ نئی مشکلات کا باعث بنا۔

  خلع اور حق مہر کی واپسی کا سوال  

ڈاکٹر مشتاق سمجھتے ہیں کہ بلقیس فاطمہ اور خورشید بی بی جیسے فیصلوں کے ایک غیر ارادی اثر کے طور پر تنسیخِ نکاح کا قانون عملاً پس منظر میں چلا گیا۔

وہ کہتے ہیں، ”جج صاحبان کا مقصد خواتین کو سہولت دینا تھا، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ جن مقدمات میں خواتین کا تنسیخ نکاح کا دعوی بہت مضبوط ہوتا ہے وہاں بھی وکلاء کے کہنے پر وہ خلع کی درخواست دائر کر دیتی ہیں یا بعض اوقات عدالتیں خود اپنی طرف سے تنسیخ نکاح کے مقدمات میں خلع دے دیتی ہیں۔ تنسیخ نکاح میں خواتین کا حق مہر محفوظ ہوتا ہے لیکن خلع کی صورت میں بالعموم حق مہر سے دستبردار ہونا ضروری تھا۔"

پاکستان میں عام طور پر خواتین خلع کے ذریعے ازدواجی تعلقات کا خاتمہ کرتی ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے جامع ڈیٹا موجود نہیں لیکن بعض اعداد و شمار اس رجحان کی تصدیق کرتے ہیں۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ ریکارڈ کے مطابق، محض لاہور کی یونین کونسلز نے 2021 میں گیارہ ہزار، 2022 میں تیرہ ہزار، 2023 میں چودہ ہزار اور 2024 میں سولہ ہزار سے زیادہ خلع کے سرٹیفکیٹ دیے۔

  حق مہر کے حوالے سے پیدا ہونے والی اس قانونی پیچیدگی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر مشتاق ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”بعد میں عدالتوں نے محسوس کیا کہ یہ صورتِ حال خواتین کے لیے مالی اعتبار سے نقصان دہ ہے، چنانچہ انہوں نے وضاحت دی کہ خلع کی صورت میں عورت پر لازم نہیں کہ وہ حقِ مہر واپس کرے، یہ فیصلہ عدالت علیحدہ طور پر کرے گی۔ اب عدالت شادی کو خلع کی بنیاد پر ختم کر دیتی ہے، مگر یہ الگ تنازع چلتا رہتا ہے کہ عورت نے مہر واپس کرنا ہے یا نہیں، اور اگر کرنا ہے تو کتنا۔ خلع دینے کے بعد عدالتیں مقدمے کی نوعیت کے حوالے سے حق مہر وغیرہ کا الگ سے فیصلہ کرتی ہیں۔"

خلع عورت کا ناقابل منتقلی حق: خواتین کے حق میں صورتحال کیسے بہتر ہوئی؟

لاہور کی وکیل اور عائلی قوانین کی ماہر فاطمہ نبیل کے مطابق، پاکستان میں خواتین کے بنیادی حق کے طور پر خلع اور تنسیخِ نکاح کو تسلیم کرنے میں سماجی اور قانونی دونوں سطحوں پر صورتحال بہتر ہوئی ہے۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ ریکارڈ کے مطابق، محض لاہور کی یونین کونسلز نے 2021 میں گیارہ ہزار، 2022 میں تیرہ ہزار، 2023 میں چودہ ہزار اور 2024 میں سولہ ہزار سے زیادہ خلع کے سرٹیفکیٹ دیےتصویر: picture alliance/Photoshot

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”تقریباً ساٹھ سال بعد عدالتی نظام نے خلع کے تصور کو دوبارہ وسعت دی ہے، پہلے یہ مرد کی رضا مندی سے مشروط تھا، پھر زیادہ تر عدالت کے نقطہ نظر پر منحصر رہا، اور اب اسے عورت کا ناقابلِ منتقلی حق قرار دیا گیا ہے۔"

چند روز قبل سپریم کورٹ نے ڈاکٹر سیما حنیف خان کے مقدمے میں فیصلہ دیتے ہوئے خلع کو عورت کا ناقابلِ انتقال حق قرار دیا اور واضح کیا کہ عدالت اپنی طرف سے خلع کا حکم جاری نہیں کر سکتی، یہ صرف عورت کے مطالبے پر دیا جا سکتا ہے۔ فیصلے میں عدالت نے جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت کو بھی ظلم کے زمرے میں شامل کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل حیدر شاہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”شاید پہلی بار اعلی عدلیہ نے ذہنی اور نفسیاتی اذیت کو اتنے واضح انداز میں علیحدگی کی جائز اور ٹھوس بنیاد قرار دیا۔ یہ عائلی قوانین میں خواتین کے لیے فیصلہ کن پیش رفت ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔"

جہاں تک علیحدگی کے بعد خواتین کے مالی تحفظ کی بات ہے، قانونی ماہرین ثناء نعیم اور اسداللہ خان کی سن 2022 میں شائع ہونے والی تحقیق، 'نکاح کی معیشت: پاکستان میں خلع اور حقِ مہر میں حالیہ قانونی پیش رفت‘ کے مطابق، ”اب عدالتیں حق مہر کو عورت کا غیر مشروط حق تصور کرتی ہیں۔ بعض فیصلوں میں عدالتوں نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ عورت کی گھریلو محنت، دیکھ بھال اور برسوں کی غیر معاوضہ مشقت اس کے مالی حقوق کا حصہ ہے، اس لیے اسے صرف خلع کی بنیاد پر حق مہر سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔"

قانونی راستہ ہموار ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر مشتاق ایک اہم نقطہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”انگریزوں نے تقریباً سو سال پہلے عدلیہ کا ایک ڈھانچہ بنایا، شہر کی سطح پر سول جج کی کرسی قائم کی، ہم آج تک اسی پر انحصار کر رہے ہیں۔ یونین کونسل کی سطح پر خاندانی مفاہمت کے ادارے قائم کرنے چاہیں، تاکہ انصاف اور قانون تک آسان اور فوری رسائی ممکن ہو سکے۔"

ادارت: امتیاز احمد

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں