1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تنقید کم کرنے کے لیے قراردادوں کی ضرورت کیوں؟

1 جنوری 2024

پاکستانی سینیٹ نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ فوج کے خلاف منفی اور بدنیتی پہ مبنی پروپگینڈا کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں۔

Pakistan, Parlamentsgebäude, Parlament, Unterhaus, gebäude, außen, Islamabad
تصویر: Raja I. Bahader/Pacific Press/IMAGO

 پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بحرہ مند خان تنگی کی طرف سے پیش کی جانے والی اس قرارداد میں پہلے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ جو اس طرح کے پروپیگنڈے میں ملوث ہوں انہیں 10 سال کے لیے عوامی عہدوں کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ تاہم اس کو بعد میں اس نکتے کو قرارداد میں شامل نہیں کیا گیا۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے اہم رہنما الیکشن سے باہر

عمران خان کے کاغذات نامزدگی دو حلقوں سے مسترد کر دیے گئے

کئی حلقوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ فوج پر تنقید کم کرنے کے لیے بار بار قراردادوں اور قانون سازی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی قراردادیں لاتی ہیں یا قانون سازی کی باتیں کرتی ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے ایوان بالا میں حالیہ مہینوں میں کئی ایسے اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں اسٹیبلشمنٹ نوازی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں سینیٹ نے سپریم کورٹ سے ایک قرارداد کے ذریعے کہا کہ وہ اپنے اس فیصلے پہ نظر ثانی کرے جس کے مطابق اس نے فوجی عدالتوں کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس قرارداد کی مخالفت صرف چند سینیٹرز کی طرف سے کی گئی تھی۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ قانون کو دوبارہ سے لکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیارات کو چیلنج کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ان دونوں قراردادوں کو سینیٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا، جن پر تنقید کرنے والے سینیٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔

پاکستان میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو مکمل عسکری مدد حاصل ہےتصویر: AP Photo/picture alliance

اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی

کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ سیاسی جماعت اس طرح کی قرارداد یں یا قانون سازی اس لیے کرتی ہیں تاکہ انہیں جی ایچ کیو کی توجہ حاصل ہو سکے۔ معروف سیاست دان اور بلوچستان کے سابق وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ قانون بنانے والوں نے آئین کو پڑھا ہی نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ہمارے آئین میں واضح طور پہ اس مسئلے کا پہلے ہی حل دیا گیا ہے اور ہماری سول عدالتیں اس طرح کے منفی پروپیگنڈے یا بدنیتی پر مبنی مہم کو ڈیل کرنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘

نواب اسلم رئیسانی کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس طرح کی قرارداد پیش کر کے اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہتی ہیں یا اس کی توجہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ '' اسی لیے وہ ایسی قراردادیں لے کر آتی ہیں یا ایسے قوانین بنانے کی کوشش کرتی ہیں، جو فوج پر تنقید کے حوالے سے ہوں۔‘‘

’سیاسی جماعتیں کٹھ پتلیاں ہیں‘

ممتاز تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ساری سیاسی جماعتیں کٹھ پتلیاں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا اس طرح کی قراردادوں کا مقصد کسی نہ کسی کو خوش کرنا ہوتا ہے یا اپنے مخالف کے خلاف اقدامات ان کا مطمع نظر ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں پاکستان تحریک انصاف عتاب میں ہے تو اس طرح کی قراردادیں ان کے خلاف ایکشن کو مزید تیز کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔‘‘

سہیل وڑائچ کے مطابق بدقسمتی سے جب سیاسی جماعتیں اس طرح کی قراردادیں پیش کرتی ہیں اور اگے بڑھ کے قوانین بناتی ہیں تو وہ قوانین انہی کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ '' یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے یا اس کی ضرورت اس لیے پڑتی ہیں کیوں کہ پاکستان میں آئین کی پاسداری نہیں کی جاتی۔ مارشل لا لگا دیا جاتا ہے۔ آئین کو معطل کر دیا جاتا ہے اورآئینی حدود سے تجاوز کیا جاتا ہے۔ اگر آئینی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے تو نہ کسی قرارداد کی ضرورت پڑے اور نہ ایسے قوانین کو لانے کی ضرورت پڑے جس کا مقصد کسی ادارے پر تنقید کو کم کرنا یا ختم کرنا ہو۔‘‘

پاکستانی سیاستدان ماضی میں بھی اسی انداز کی قانون سازی کر چکے ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP

’ریس چل رہی ہے‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ریس چل رہی ہے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے پیش کردہ یہ قرارداد جی ایچ کیو کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت نون لیگ اسٹیبلشمنٹ کی لاڈلی بنی ہوئی ہے اور خود بلاول نے بھی نواز شریف کو سپر لاڈلہ قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اپنا بھی سی وی پیش کر رہی ہے۔‘‘

 فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست میں جی ایچ کیو کی حمایت کے بغیر سیاست مشکل ہے۔ '' لیکن سیاسی جماعتوں کو اس اسٹیبلشمنٹ سے قربت رکھنے والی روش کو ترک کرنا پڑے گا ورنہ سیاسی جماعتوں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ نون لیگ کا ابھی وجود خطرے میں ہے اور پیپلز پارٹی بھی اس طرح کے رویے کی وجہ سے سیاسی طور پر نقصانات اٹھائے گی۔‘‘

آئینی حدود سے تجاوز پر تنقید ہونی چاہیے

 تاہم پاکستان پیپلز پارٹی اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے کہ پارٹی کسی بھی طرح سے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق سینیٹر سحر کامران کا کہنا ہے کہ پارٹی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ کوئی بھی ادارہ اگر آئینی حدود سے تجاوز کرے، تو اس پر تنقید ہونی چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا ہماری پارٹی کسی بھی ادارے کے خلاف منفی پروپیگنڈے پہ یقین نہیں رکھتی۔ تاہم اگر پاکستان کا کوئی بھی ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرتا ہے یا سیاست میں مداخلت کرتا ہے تو اس پر تنقید ہونی چاہیے۔‘‘

سحر کامران کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی صرف عوام کے ووٹ اور عوامی طاقت پر یقین رکھتی ہے۔ ''ہمیں ضرورت نہیں کہ ہم کسی ادارے کی طرف دیکھیں کیونکہ ہمارے لیے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور ہم صرف عوامی طاقت پر ہی یقین رکھتے ہیں۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں