تنہا سفر کرنے والے مہاجر بچوں کے ليے پناہ کا نظام کيا ہے؟
عاصم سلیم
30 مارچ 2018
پچھلے چند سالوں کے دوران جہاں لاکھوں تارکين وطن نے پناہ کے ليے یورپ تک کا سفر کيا، وہيں ہزاروں تنہا سفر کرنے والے نابالغ، مہاجر بچے بھی مختلف يورپی ممالک پہنچے۔
اشتہار
وفاقی جرمن ادارہ برائے ہجرت و مہاجرين (BAMF) کے مطابق ملکی محکمہ برائے يوتھ ويلفيئر نے 2016ء ميں تنہا سفر کرنے والے 44,935 مہاجر بچوں کو پناہ فراہم کرنے کے مقصد سے اپنی تحويل ميں ليا۔ جرائم سے نمٹنے والی وفاقی جرمن پوليس کے اعداد و شمار کے مطابق 2017ء ميں کُل 6,186 بچے لاپتہ ہوئے جن ميں تيرانوے فيصد لڑکے تھے۔ ان کی شہريت کے حوالے سے حتمی تعداد واضح نہيں تاہم لاپتہ ہونے والے لڑکوں کی اکثريت کا تعلق افغانستان، شام اور مراکش سے ہے۔
لاپتہ بچوں کی حقيقی تعداد اب بھی مکمل طور پر واضح نہيں۔ اس کی ايک وجہ يہ ہے کہ اس مخصوص معاملے ميں پاليسياں واضح نہيں جب کہ ديگر وجوہات ميں يہ بھی شامل ہے کہ اکثر اوقات ايسے بچوں کے اندراج ميں غلطياں سر زد ہو جاتی ہيں۔ مختلف ذرائع کے مطابق جرمنی ميں لاپتہ ہونے والے نابالغ مہاجر بچوں کی تعداد پانچ تا آٹھ ہزار ہے جن ميں سے 5,129 کا پتہ لگايا جا سکتا ہے۔ ان بچوں کی حتمی منزل جرمنی نہيں بلکہ سويڈن يا ڈنمارک تھی کيونکہ ان کے اہل خانہ ان ممالک ميں موجود تھے اور اسی ليے بچے وہاں گئے۔
بين الاقوامی امدادی ادارہ ’سيو دا چلڈرن‘ تنہا سفر کرنے والے بچوں کے تحفظ کو يقينی بنانے کے ليے ’کثير القومی نظام‘ کے قيام پر زور ديتا ہے تاکہ سفر کے دوران ان بچوں کا تمام ممالک ميں تحفظ ممکن بنايا جا سکے۔
جرمنی ميں جيسے ہی تنہا سفر کرنے والے مہاجر بچوں کی شناخت ہوتی ہے، انہيں يوتھ ويلفيئر کا محکمہ اپنی تحويل ميں لے ليتا ہے۔ پھر ايسے بچے کے ليے کوئی ’ليگل گارڈين‘ يا قانونی محافظ مقرر کيا جاتا ہے اور بچے کی عمر کے لحاظ سے اسے کسی رہائش گاہ ميں رکھا جاتا ہے۔ تنہا سفر کرنے والے نابالغ، مہاجر بچوں کی رہائش کا بندوبست خصوصی مراکز ميں کيا جاتا ہے۔ ان مراکز کا ’جرمن سوشل کوڈ بک VIII‘ کے تحت ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب يہ ہے کہ ان مراکز ميں چند بنيادی معيارات کا خيال رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر وہاں ملازمت کرنے والوں کا خصوصی تربيت يافتہ ہونا لازمی ہے اور يہ بھی کہ مرکز ميں حد سے حد پچاس بچوں کی ديکھ بھال ہو، اس سے زيادہ نہيں۔
ابتدائی چند ہفتوں ميں متعلقہ بچے کی صورتحال کا خصوصی جائزہ ليا جاتا ہے۔ اس ميں اس کی جسمانی و نفسياتی صحت کا تعين کيا جاتا ہے اور يہ بھی ديکھا جاتا ہے کہ اس کے ليے سب سے موزوں حل کيا ہو سکتا ہے۔ اس مرحلے ميں بچے کو اس کے اہل خانہ سے ملانے کے امکانات، اس کا تعليمی معيار، زبان سکھانے کی ضرورت وغيرہ جيسے عوامل طے کيے جاتے ہيں۔
تنہا سفر کرنے والے نابالغ مہاجر بچوں کے معاملے ميں سب سے مشکل عمل ان کی شناخت کا ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں کوئی عمل وضح نہيں۔
امدادی ادارے ’سيو دا چلڈرن‘ کے مطابق اگرچہ يورپ ميں تنہا سفر کرنے والے نابالغ مہاجر بچوں کے ليے نظام موجود ہيں تاہم يہ نظام قطعی طور پر ’اطمينان بخش‘ نہيں۔ بچوں کے متعدد حقوق کی پامالی بھی ايک حقيقت ہے اور ان کے تحفظ ميں کوتاہياں بھی۔
شامی مہاجر بچے زندگی کس طرح گزار رہے ہيں؟
شامی خانہ جنگی کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے والے قريب 4.8 ملين افراد ميں نصف سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔ يورپ اور مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں قائم مہاجر کيمپوں ميں پرورش پانے والے ان بچوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔
بے بسی اور معصوميت کا ملاپ
شمالی يونانی شہر اڈومينی کے قريب مقدونيہ اور يونان کی سرحد پر ايک بچہ ريلوے ٹريک پر کھيل رہا ہے۔ بلقان روٹ کی بندش کے بعد اڈومينی کے مہاجر کيمپ ميں ہزاروں مہاجرين پھنس گئے ہيں۔ اقوام متحدہ اور کئی امدادی تنظيموں کی جانب سے بارہا خبردار کيا جا رہا ہے کہ علاقے ميں مسلسل بارشوں اور سرد موسم کے سبب حالات انتہائی خراب ہيں اور بچوں ميں کئی اقسام کی بيمارياں پيدا ہونے کے امکانات کافی زيادہ ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki
پيٹ کی خاطر
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر ايک شامی بچہ روٹی ليے بھاگ رہا ہے۔ ايتھنز حکومت بارہا تنبيہ کر چکی ہے کہ بلقان روٹ کی بندش کے سبب يونان ميں اڈومينی کے مقام پر پھنسے ہوئے پناہ گزينوں کی تعداد ايک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ايسے ميں کھانے پيشے کی اشياء کی خاطر لڑائی جھگڑے عام ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Dilkoff
بے بسی اور بد حالی کی تصوير
لبنان کے دارالحکومت بيروت کے نواح ميں ايک مہاجر خاتون سڑک کے کنارے بيٹھ کر اپنے بچوں کے ساتھ کھيل رہی ہے۔ لبنان ميں تقريباً ايک اعشاريہ دو ملين سے زائد پناہ گزين مقيم ہيں، جن ميں بچوں کی شرح 53 فيصد ہے۔ سيو دا چلڈرن نامی ادارے کے مطابق لبنان ميں 313,000 بچوں کو انسانی بنيادوں پر فوری مدد درکار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Mazraawi
بے يار و مددگار
استنبول کے قريب موٹر وے پر حکام کی جانب سے روکے جانے پر ايک غير قانونی تارک وطن کے ہاتھوں ميں بچہ بے ساختہ رو پڑا۔ گزشتہ برس ستمبر کے بعد مہاجرين کے بحران کے عروج پر ہزاروں تارکين وطن استنبول سے اڈيرن شہر کی جانب پيش قدمی کيا کرتے تھے۔ یورپ میں تارکین وطن کا بحران شروع ہونے کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یونان سے مقدونیہ آنے والے پناہ گزینوں میں عورتوں اور بچوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Orsal
ايک خواب جو پورا نہ ہو سکا
ترک شہر استنبول ميں شامی بچوں کے ليے ايک اسکول۔ اگرچہ ترکی ميں ہزارہا شامی بچے اسکول جا رہے ہيں تاہم اب بھی لاکھوں کو يہ بنيادی سہولت ميسر نہيں۔ اقوام متحدہ کی بچوں سے متعلق ايجنسی نے اسی ہفتے جاری کردہ اپنی ايک رپورٹ ميں انکشاف کيا ہے کہ اس وقت تقريباً تين ملين شامی بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہيں۔
تصویر: DW/K. Akyol
ہر حال ميں گزارا
اس تصوير ميں ايک شامی تارک وطن خاتون اپنے بچوں کے ہمراہ بيٹھے کھانا پکا رہی ہے۔ لبنان ميں جبل الشوف کے پہاڑی سلسلے کے قريب واقع کترمایا نامی گاؤں ميں شامی پناہ گزينوں کا ايک کيمپ قائم ہے۔ پس منظر ميں برفباری ديکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Mohammed Zaatari
ہر دن ايک نئی صبح
شامی شہر کوبانی سے تعلق رکھنے والے کرد مہاجرين کے بچے عارضی خيمے لگا رہے ہيں۔ آئی او ایم کے مطابق جنوری کے مہینے میں بحیرہ ایجیئن میں ڈوبنے والے ہر پانچ تارکین وطن میں سے ایک شیر خوار بچہ تھا۔ جنوری کے مہینے ميں ترکی سے یونان جانے کی کوششوں کے دوران 272 مہاجرین ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے جن میں 60 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
مہاجرين کی صفوں ميں شامل تنہا بچے
جرمن دارالحکومت برلن کے ايک اسکول کے اسپورٹس ہال ميں قائم مہاجر کيمپ کا ايک منظر، جہاں ايک بچہ بستروں کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن ميں ستر ہزار کے لگ بھگ تنہا بچے بھی شامل تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
مہاجرين ميں کتنے بچے شامل
پچھلے چند مہينوں کے دوران يورپ پہنچنے والے تارکين وطن ميں مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد کیا تھی۔