’تنہا مہاجر بچے اپنے اہل خانہ کو یورپ بلا سکتے ہیں‘
12 اپریل 2018
یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت نے جمعرات کے روز اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ ایسے تنہا نابالغ مہاجر، جنہیں یورپی ممالک میں سیاسی پناہ دے دی گئی ہو، اپنے اہل خانہ کو اپنے پاس بلوانے کے حق دار ہیں۔
اشتہار
جمعرات کے روز اس عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ ایسے مہاجر جو اس وقت یورپی یونین میں داخل ہوئے، جب وہ اٹھارہ برس سے کم عمر کے تھے اور اس کے بعد ان کی جانب سے سیاسی پناہ کے لیے دائرکردہ درخواست منظور کر لی گئی، جب کے اس دوران وہ قانونی طور پر بالغ کہلائے جانے کی عمر یعنی اٹھارہ برس کے ہو چکے ہوں، اپنے اہل خانہ کو یورپ بلا سکتے ہیں۔
’مہاجرین کے روپ میں مسلمان حملہ آور یورپ آ رہے ہیں‘
تیسری مرتبہ ہنگری کے وزیراعظم منتخب ہونے والے وکٹور اوربان یورپی ممالک میں مہاجرین کی آمد کے خلاف اٹھنے والی نمائندہ آواز رہے ہیں۔ تارکین وطن کو ’زہر‘ اور مہاجرت کو ’حملہ‘ قرار دینے والے اوربان تنقید سے کبھی نہیں ڈرے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’مہاجرین کے روپ میں مسلم حملہ آور‘
اوربان نے جرمن روزنامے ’دی بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا،’’میں ان لوگوں کو مسلم تارکین وطن نہیں بلکہ مسلمان حملہ آور سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ بڑی تعداد میں یورپ آئے یہ مسلمان مہاجر ہمیں متوازی معاشروں کی طرف لے کر جائیں گے کیوں کہ مسیحی اور مسلم سماج کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔‘‘ اوربان کا کہنا تھا کہ متنوع ثقافت محض ایک واہمہ ہے۔
تصویر: Reuters/F. Lenoir
’مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں‘
جرمن اخبار ’دی بلڈ‘ کے اس سوال پر کہ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ جرمنی تو لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرے لیکن ہنگری چند کو بھی نہیں، اوربان نے کچھ یوں رد عمل ظاہر کیا،’’ مہاجرین آپ کو چاہیے تھے، ہمیں نہیں۔ مہاجرت سے ہنگری کی خود مختاری اور ثقافتی اقدار کو خطرہ ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’مہاجرت زہر ہے‘
یہ پہلی بار نہیں جب ہنگری کے اس رہنما نے مہاجرت پر تنقید کی ہے۔ سن دو ہزار سولہ میں بھی اپنے ایک بیان میں اوربان نے کہا تھا کہ ہنگری کو اپنے مستقبل یا معیشت یا ملکی آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی ایک بھی مہاجر کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا،’’ہمارے لیے مہاجرت حل نہیں بلکہ مسئلہ ہے، دوا نہیں بلکہ زہر ہے۔ ہمیں تارکین وطن کی ضرورت نہیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/P. Gorondi
’دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کی درآمد‘
وکٹور اوربان نے سن 2016 کے اوائل میں بلڈ اخبار کو بتایا تھا،’’اگر آپ مشرق وسطیٰ سے لاکھوں کی تعداد میں غیر رجسٹرڈ شدہ تارکین وطن کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی، سامیت دشمنی، جرائم اور ہم جنس پرستی کو در آمد کر رہے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/L. Balogh
’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘
اوربان نے یورپی یونین کے رکن ریاستوں میں مہاجرین کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر بھی متعدد بار تنقید کی ہے۔ سن 2015 میں یورپی یونین سے متعلق خبریں اور تجزیے شائع کرنے والی نیوز ویب سائٹ ’پولیٹیکو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ’تمام دہشت گرد بنیادی طور پر مہاجرین ہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Bozon
متوازی معاشرے
پولینڈ اور آسٹریا جیسی ریاستیں بھی مہاجرین کے حوالے سے ہنگری جیسے ہی تحفظات رکھتی ہیں اور یوں اوربان کے اتحادیوں میں شامل ہیں۔ سن 2015 میں اسپین کے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ ایک انٹرویو میں اوربان کا کہنا تھا،’’ہم کس قسم کا یورپ چاہتے ہیں۔ متوازی معاشرے؟ کیا ہم چاہتے ہیں مسلمان اور مسیحی افراد ساتھ ساتھ رہیں؟‘‘
یورپی یونین میں مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق امور انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں، کیوں کہ یورپ کی قریب تمام رکن ریاستوں میں عوامیت پسند جماعتوں نے اسی معاملے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی عوامی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے۔ سن 2015ء کے وسط میں مہاجرین کا ایک بہت بڑا سیلاب یورپ کی طرف امڈ آیا تھا، جس میں ایک ملین سے زائد تارکین وطن یورپی یونین پہنچے۔ تاہم اس دوران یورپ بھر میں مہاجرین مخالف جذبات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یورپی یونین کی اعلیٰ ترین عدالت میں جمعرات کے روز یہ فیصلہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کے مقدمے میں دیا گیا، جو سن 2014 کے اوائل میں 17 برس کی عمر میں ہالینڈ پہنچی تھی، جب کہ جون میں وہ اٹھارہ برس کی ہو گئی۔ اس کی جانب سے سیاسی پناہ کے لیے دائر کی جانے والی درخواست پر فیصلہ اس کی اٹھارہویں سالگرہ سے چار ماہ بعد ہوا، جس کے تحت اسے ہالینڈ میں سیاسی پناہ دے دی گئی۔
اس نے سن 2014 کے آخر میں اپنے والدین اور تین بھائیوں کو ہالینڈ منگوانے کے حوالے سے درخواست دی، جسے ڈچ حکام نے مسترد کر دیا۔ حکام کا موقف تھا کہ والدین کو بلانے کا حق فقط ان افراد سے متعلق ہے، جن کی عمریں اٹھارہ برس سے کم ہوں اور چوں کہ وہ اٹھارہ برس سے زائد کی ہو چکی ہے، اس لیے ’فیملی ری یونیفیکیشن‘ کا یہ معاملہ اسے کے والدین کی یورپ منتقلی پر منطبق نہیں ہوتا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل پالینڈ کی ایک عدالت کے پاس گئی، تو اس نے اسے یورپی عدالت برائے انصاف کی جانب بھیج دیا۔
جرمنی: زیر تربیت مہاجرین کا تعلق ان ممالک سے ہے
گزشتہ برس مجموعی طور پر نو ہزار تین سو تارکین وطن کو مختلف جرمن کمپنیوں میں فنی تربیت (آؤس بلڈُنگ) کے حصول کی اجازت ملی۔ زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مندرجہ ذیل ممالک سے ہے.
تصویر: D. Kaufmann
۱۔ افغانستان
افغانستان سے تعلق رکھنے والے 3470 مہاجرین اور تارکین وطن مختلف جرمن کمپنوں میں زیر تربیت ہیں۔
تصویر: DW/A. Grunau
۲۔ شام
جرمنی میں شامی مہاجرین تعداد کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہیں، لیکن زیر تربیت مہاجرین کی تعداد محض ستائیس سو رہی، جو افغان پناہ گزینوں سے بھی کم ہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
۳۔ عراق
ملک بھر کی مختلف کمپنیوں میں آٹھ سو عراقی مہاجرین تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے سات سو دس تارکین وطن کو فنی تربیت کے حصول کے لیے جرمن کمپنیوں نے قبول کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
۵۔ ایران
جرمنی میں پناہ کے متلاشی ایرانیوں کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے لیکن فنی تربیت حاصل کرنے والے ایرانی تارکین وطن تعداد (570) کے اعتبار سے پانچویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ پاکستان
چھٹے نمبر پر پاکستانی تارکین وطن آتے ہیں اور گزشتہ برس ساڑھے چار سو پاکستانی شہریوں کو جرمن کمپنیوں میں انٹرنشپ دی گئی۔
تصویر: DW/R. Fuchs
۷۔ صومالیہ
اس حوالے سے ساتواں نمبر صومالیہ کے تارکین وطن کا ہے۔ صومالیہ کے 320 تارکین وطن کو فنی تربیت فراہم کی گئی۔
تصویر: DW/A. Peltner
۸۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 280 پناہ گزینوں کو گزشتہ برس جرمنی میں فنی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔
تصویر: A.T. Schaefer
8 تصاویر1 | 8
لکسمبرگ میں قائم یورپی عدالت برائے انصاف نے جمعرات کے روز اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ایسے تمام تارکین وطن جن کی جانب سے یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست قبول ہو گئی ہے، اگر وہ یورپی یونین میں داخلے کے وقت 18 برس سے کم عمر کے تھے، تو انہیں یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے والدین کو اپنے پاس بلا سکیں۔