تنہا نابالغ مہاجرین کی ’سرپرستی کی دعوت‘ باعث مذمت کیوں؟
مقبول ملک بینجمن نائٹ
17 جنوری 2018
جرمنی میں انتہائی دائیں باز و کے نوجوانوں کی تحریک کی تنہا نابالغ مہاجرین سے متعلق ایک مہم کی مذمت کی جا رہی ہے۔ اس ’شناختی تحریک‘ کے کم عمر لیکن اکیلے تارکین وطن سے متعلق ایک اعلان کا مقصد وہ نہیں جو بظاہر نظر آتا ہے۔
اشتہار
کئی یورپی ممالک میں اس وقت ایک ایسی تحریک کی ترویج کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کے محرک انتہائی دائیں بازو کے نوجوان ہیں۔ اسے یورپی Identity Movement یا ’شناختی تحریک‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تحریک کے حامی چاہتے ہیں کہ یورپی ممالک کی اپنی مغربی مسیحی پہچان برقرار رہے اور اسی لیے وہ اپنے اپنے ممالک میں بڑی تعداد میں غیر ملکی مہاجرین یا تارکین وطن کی آمد کے خلاف ہیں۔
جرمنی میں اس ’یورپی شناختی تحریک‘ کی شمالی جرمن سٹی اسٹیٹ ہیمبرگ میں قائم شاخ کی طرف سے ابھی حال ہی میں ایک اعلان میں اس کے ارکان کو یہ دعوت دی گئی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں تنہا اور کم عمر مہاجرین کے قانونی سرپرست بننے کی کوشش کرنا چاہیے۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس طرح یہ نوجوان جرمن ریاست کی طرف سے ایسے تارکین وطن کی سرپرستی کے معاوضے کے طور پر فی گھنٹہ 15.5 یورو سے لے کر 33.5 یورو یا 23.9 امریکی ڈالر سے لے کر 41 ڈالر تک کما بھی سکتے ہیں۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جرمنی میں اکیلے آنے والے نابالغ مہاجرین کو مختلف سرکاری کارروائیوں کی تکمیل کے لیے قانونی طور پر اپنے لیے کسی نہ کسی سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام بہت سے انسان دوست مقامی جرمن رضاکار یا مختلف امدادی تنظیمیں بھی کرتی ہیں۔ تاہم ان کا واضح مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایسے تنہا نابالغ تارکین وطن کو کم سے کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ ان کی تعلیم کے بندوبست یا اسکول کی تبدیلی وغیرہ سمیت سارے دفتر کام آسانی سے مکمل ہو سکیں۔
اس کے برعکس ’شناختی تحریک‘ کے ارکان کی طرف سے ایسے مہاجر بچوں کی سرپرستی کی دعوت کا مقصد یہ ہے کہ ایک تو اس طرح ریاستی خزانے سے اپنے لیے معاوضے کے طور پر رقوم حاصل کی جا سکیں اور ساتھ ہی یہ زیادہ سے زیادہ کوششیں بھی کی جائیں کہ بعد میں جرمنی میں مقیم یہ کم عمر مہاجرین اپنے اہل خانہ کو جرمنی نہ بلا سکیں۔
اپنے اس موقف کے حق میں اس تحریک نے دلیل یہ دی ہے کہ جرمنی میں گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں مہاجرین، خاص کر ہزارہا نابالغ تارکین وطن کی آمد کے نتیجے میں ’قانونی سرپرستوں کا ایک پورا کاروبار‘ وجود میں آ چکا ہے، جس کی حوصلہ شکنی کی جانا چاہیے۔ اس صورت حال کے لیے اس تحریک نے ’اسائلم انڈسٹری‘ یا ’پناہ کے حصول کی صنعت‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
8 تصاویر1 | 8
ان حالات میں ہیمبرگ میں جرمن داخلی انٹیلیجنس کی صوبائی شاخ کے اہلکاروں نے ’شناختی تحریک‘ کی اپیل کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ ان انٹیلیجنس حکام کا کہنا ہے کہ یہ تحریک اپنی سوچ میں غیر آئینی موقف اور مردم بیزار رویوں کی حامل ہے اور اس کے اس اعلان کو ’سماجی خدمت کی کوئی بہت بڑی کوشش‘ کوئی بھی نہیں سمجھے گا۔
دوسری طرف ’شناختی تحریک‘ کے ترجمان ڈانیئل فِس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی تحریک نے نابالغ مہاجرین کی قانونی سرپرستی کے کئی ماہرین سے مشورے کیے ہیں اور یہ تحریک اپنے ارکان کے لیے ایسے خصوصی تربیتی پروگراموں کا اہمتام بھی کرے گی، جن کے بعد وہ اچھے ’سرپرست‘ ثابت ہو سکیں۔ فِس نے یہ بھی کہا کہ ان کی تحریک کے کوئی ’خفیہ منفی ارادے‘ نہیں ہیں۔
اس بارے میں ہیمبرگ شہر کی انتظامیہ کے تعلقات عامہ کے شعبے اور مہاجرین کے سماجی انضمام کے محکمے کی طرف سے ڈوئچے ویلے کو بتایا گیا کہ ’شناختی تحریک‘ کا یہ اقدام صرف سستی شہرت کی ایک کوشش ہے اور فی الوقت ہیمبرگ میں کم عمر مہاجرین کے لیے نئے قانونی سرپرستوں کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔
اپنے اس موقف کے حق میں ہیمبرگ میں صوبائی انتطامیہ کے عہدیداروں نے دلیل یہ دی کہ 2015 میں اس جرمن شہر میں 2,572 تنہا نابالغ مہاجرین مقیم تھے لیکن گزشتہ برس کے آخر تک ان کی عداد بہت کم ہو کر صرف 517 رہ گئی تھی۔ ساتھ ہی ان حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ کسی اکیلے نابالغ مہاجر کے سرپرست کے انتخاب کے لیے کسی بھی خواہش مند درخواست دہندہ کا چناؤ بڑے دھیان سے اور تفصیلی اسکریننگ کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔
ہیمبرگ میں بچوں کے تحفظ کی غیر سرکاری فلاحی تنظیم Kinderschutzbund کےرالف سلیُوٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ محض خواہ مخواہ کا خوف پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے، جس کا نتیجہ جرمن حکام کی طرف سے مذمت کی صورت میں ایک ایسا ردعمل تھا، جس کی یہ تحریک قطعی خواہش مند نہیں تھی۔‘‘
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔