سترہ سالہ الیاس ناروے کے شہر آلٹا میں نابالغ پناہ گزینوں کے لیے بنائے گئے ایک مرکز میں رہ رہا ہے۔ ناروے میں اپنے مستقبل کی فکر میں اس کی آنکھوں کے گرد حلقے مزید گہرے ہو چکے ہیں۔
اشتہار
الیاس اور اس کے بھائی کا تعلق افغانستان سے ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ دونوں ایک ایجنٹ کی وساطت سے روسی دارالحکومت ماسکو پہنچے تھے۔ ایجنٹ نے انہیں وہاں کام تو دلوا دیا تھا لیکن انہیں ہر روز میں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور چھٹی بھی نہیں دی جاتی تھی۔ صورت حال سے تنگ آکر ایک روز ان دونوں بھائیوں نے مینیجر کے دفتر سے ایک ہزار ڈالر چوری کیے اور قطبی راستوں کے ذریعے ناروے پہنچ گئے۔
صرف الیاس اور اس کا بھائی ہی نہیں بلکہ یورپ میں جاری تارکین وطن کے موجودہ بحران کے دوران ہزاروں نابالغ پناہ گزین یورپ پہنچے ہیں۔ گزشتہ برس کے دوران صرف سویڈن میں بیس ہزار سے زائد کم عمر افغان پناہ گزین پہنچے تھے۔ یہ تعداد 2014ء کے دوران تمام یورپی ممالک میں دنیا بھر سے آنے والے کم عمر تارکین وطن کی تعداد کے مساوی ہے۔
نابالغ تارکین وطن کی یورپ کی جانب ہجرت کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں سویڈن کی مائیگریشن ایجنسی سے وابستہ ایک ماہر، آندریاس ریڈن کا کہنا ہے، ’’میں طویل عرصے سے اس شعبے سے وابستہ ہوں لیکن اس سے پہلے ایسی صورت حال میری نظر سے نہیں گزری۔‘‘
مقدونیہ کی سرحد پر پھنسے مہاجرین، انسانی المیے کا خطرہ بڑھتا ہوا
02:16
ناروے اور سویڈن پہنچنے والا ہر پانچویں پناہ گزین کی عمر اٹھارہ برس سے کم ہے۔ اسی طرح جرمنی، ہالینڈ، آسٹریا، ڈنمارک اور فن لینڈ میں بھی سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے نوجوان تارکین وطن کی تعداد میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یورپ پہنچنے والے تارکین وطن میں سے زیادہ تر کا تعلق شام، افغانستان، عراق، پاکستان اور اریٹریا جیسے ممالک سے ہے۔ سب سے زیادہ تارکین وطن شام سے آئے ہیں لیکن اٹھارہ سال سے کم عمر پناہ گزینوں میں سے زیادہ تر افغان شہری ہیں۔
نابالغ تارکین وطن کی بڑی تعداد کو رہائش اور دیگر سہولتیں فراہم کرنا بھی یورپی ممالک کے لیے ایک مشکل مرحلہ بن چکا ہے۔ ناروے کے ادارہ برائے تارکین وطن کی ڈپٹی ڈائریکٹر بیرگِٹ لانگے کے مطابق، ’’پناہ گزینوں کے عام مراکز کے اہلکاروں کو نابالغ تارکین وطن کو سنبھالنے کا تجربہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں ان کے لیے الگ مراکز کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
اپنے وطنوں میں جنگوں اور دیگر مسائل کا سامنا کرنے والے نابالغ تارکین وطن اکثر صدموں کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی نفسیاتی کیفیت بھی مستحکم نہیں ہوتی۔ ایسے نابالغ نوجوانوں میں جرائم کی طرف رجحان بھی نسبتاﹰ زیادہ ہوتا ہے۔
ایسی ہی صورت حال کی عکاسی سویڈن میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب کم عمر پناہ گزینوں کی جانب سے جنسی تشدد، جھگڑے یا لوٹ مار جیسے جرائم میں ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے نہ آئیں۔
اکیلے سفر کرنے والے نابالغ تارکین وطن کو کم عمری کی وجہ سے سفر میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی جانب سے ان نوجوانوں سے پیسے لینے سے لے کر جنسی استحصال تک کے واقعات اکثر سامنے آتے ہیں۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘