توانائی کا بحران: تاریک شہر ہمارے لیے فائدہ مند کیسے؟
13 ستمبر 2022
توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر جرمنی کے سبھی شہروں نے رات کے وقت کافی لائٹیں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں رقم اور توانائی کی بچت بھی ہو گی اور ایسا کرنا انسانی صحت، ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی بہتر ہو گا۔
اشتہار
یہ روسی یوکرینی جنگ کے تناظر میں اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیدا شدہ بحران ہی کا نتیجہ ہے کہ جرمنی بھر کے شہروں نے رات کے وقت مشہور عمارات، تاریخی یادگاروں اور ٹاؤن ہالز، عجائب گھروں اور لائبریریوں جیسی عمارات کی روشنیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی مثال کے طور پر وکٹری کالم یا فتح کے ستون اور برلن کیتھیڈرل سمیت شہر کی پہچان سمجھی جانے والی تقریباﹰ 200 عمارات غروب آفتاب کے بعد اب تاریکی میں ہی ڈوبی رہتی ہیں۔
جرمنی میں یکم ستمبر سے نافذالعمل ہو چکے توانائی کی بچت سے متعلق وفاقی حکومت کے آرڈیننس کے تحت ملک بھر میں تمام عوامی عمارات کو روشنیوں کے ذریعے باہر سے منور کرنا قانوناﹰ ممنوع ہو چکا ہے اور عام نیون سائن بھی دن کے وقت محض چند گھنٹوں کے لیے ہی روشن رکھے جا سکتے ہیں۔
وسطی جرمنی کے شہر وائیمار نے تو اپنے پورے بلدیاتی علاقے میں توانائی کی بچت کے پروگرام پر اس سال موسم گرما کے ابتدائی مہینوں سے ہی عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت سڑکوں اور راہ گیروں کے لیے بنائے گئے راستوں پر لگی سٹریٹ لائٹس اب ہر شام آدھ گھنٹے کی تاخیر سے روشن کی جاتی ہیں اور ہر صبح آدھ گھنٹہ پہلے ہی بجھا دی جاتی ہیں۔
اس طرز عمل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یوں بجلی اور مالی وسائل کی بچت تو ہو گی ہی لیکن ساتھ ہی مقابلتاﹰ تاریک شہر تحفظ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی کئی حوالوں سے مثبت نتائج کا سبب بنیں گے۔
لائٹیں بند کرنا فضائی آلودگی کے خلاف بھی مددگار
امریکہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ڈارک اسکائی ایسوسی ایشن کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں رات کے وقت آؤٹ ڈور جلائی جانے والی لائٹوں میں سے ایک تہائی کا قطعاﹰ کوئی فائدہ ہوتا ہی نہیں۔ اس تنظیم کے ماہرین کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں حالیہ بےتحاشا اضافے سے پہلے بھی سچ یہی تھا کہ غیر ضروری لائٹیں بند کر کے سالانہ تقریباﹰ تین بلین یورو (تین بلین ڈالر) کی بچت کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اسی اقدام سے فضائی آلودگی اور زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے تحفظ ماحول کی کوششوں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا تھا اور یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کی رانی لکشمی بائی سینٹرل زرعی یونیورسٹی سے منسلک ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کے ماہر پون کمار کے مطابق صرف بھارت میں ہی لائٹنگ کا حد سے زیادہ استعمال سالانہ 12 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں اخراج کی وجہ بنتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زہریلی کاربن گیس کا یہ حجم بھارت ہی میں سال بھر کے دوران فضائی اور سمندری راستوں سے آمد و رفت کے باعث خارج ہونے والے کاربن گیسوں کے مجموعی حجم کے تقریباﹰ نصف کے برابر ہے۔
روشنیوں سے آلودہ آسمان
آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔
اسی طرح کے حالات کی انتہائی نوعیت کی ایک مثال سنگاپور میں بھی دیکھنے میں آتی ہے، جہاں روشنیوں کی وجہ سے راتیں اتنی منور ہوتی ہیں کہ عام شہریوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
اشتہار
ہمیں تاریکی کی ضرورت ہے
رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت اچھی ہے۔ اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے۔
لیڈ ٹیکنالوجی سے روشنی کی آلودگی میں اضافہ، آسمان گم ہوتا ہوا
بظاہر لیڈ لائٹس سے توانائی کا تحفظ ہوا ہے لیکن ان کی وجہ سے روشنی کی آلودگی بڑھی ہے۔ ان روشنیوں سے آسمان کی وسعت زیادہ روشن ہو گئی لیکن آسمان کے ستارے مدھم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/F. Pritz/picturedesk.com
ایک نایاب صورت گری: شفاف آسمان
بے شمار لوگ کھلا اور شفاف آسمان دیکھنے کے لیے شہروں سے دور ساحلِ سمندر یا پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں مصنوعی روشنیاں بھی رات کو روشن ہوں گی۔ اس سے آسمان کی وسعت میں روشنی پھیل جاتی ہے اور ستاروں کا حسن مدھم پڑتے پڑتے معدوم ہو جاتا ہے۔
تصویر: Imago/Westend61
ايل ای ڈی لائٹس: چمک دار اور روشن
نئے قسم کے ايل ای ڈی لیمپس زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ اس باعث عام لوگ اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ لیڈ لیمپس کی روشنی نیلی طولِ موج (wavelength) کی وجہ سے دور سے بھی زیادہ روشن دکھائی دیتی ہے۔ لیڈ لیمپس کی وجہ سے روشنی کی آلُودگی بڑھی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/L. Xiaoyang
محفوظ علاقے بغیر روشنی کے
یورپ کی جنوبی آبزرویٹری یا رصد گاہ جنوبی امریکی ملک چلی میں قائم ہے۔ اس کی حدود میں گھروں کے باہر مصنوعی روشنیاں جلانے پر پابندی ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ یورپی آبزرویٹری انسانی بستیوں سے بھی خاصی دور قائم کی گئی ہے۔ دوسری جانب شہروں کے قریب قائم فلکیاتی رصد گاہوں کو آسمانی مشاہدے میں دقت کا سامنا رہتا ہے۔ شہروں میں زرد یا زردی مائل سفید بلب لگانے سے روشنی سے پیدا ہونے والی آلودگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schulz-Rohr
پہلے پہل۔۔۔۔۔۔۔
جرمنی کے ارضیاتی سائنس کے تحقیقی ادارے نے لائبنٹس انسٹیٹیوٹ اور برطانیہ کی ایکسیٹر یونیورسٹی کے تعاون سے ایسا سیٹلائٹ ڈیٹا حاصل کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیڈ لیمپوں کے متعارف کرانے سے قبل کا مجموعی منظر کیسا تھا۔ یہ تصویر اُسی ڈیٹا پر مشتمل ہے۔ اس ڈیٹا کے حصول میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے ساتھ ساتھ امریکی شہر بولڈر کے پہاڑوں سے حاصل ڈیٹا بھی شامل ہے۔
تصویر: GFZ Potsdam
اور اب۔۔۔۔۔
پچھلی تصویر کے مقابلے میں اب جس ڈیٹا پر مشتمل تصویر آپ دیکھ رہے ہیں، وہ سن 2015 میں بنائی گئی تھی۔ اس میں روشنیوں کا تبدیل شدہ نظام واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ سفید روشنیاں زیادہ پھیل چکی ہیں۔ اس روشنی کا حجم جمع کرنا مشکل ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمینی روشنیاں پہلے سے طے کردہ معلومات کے مقابلے میں میں زیادہ طاقت ور ہیں۔
تصویر: GFZ Potsdam
روشنیوں کی پیمائش
مصنوعی روشنیوں کی پیمائش کے آلے کو وزیبل انفراریڈ امیجنگ ریڈیومیٹر (VIIRS) کہا جاتا ہے۔ اس آلے سے مصنوعی روشنیوں کی طاقت اور قوت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس آلے سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر مصنوعی روشنیوں کی شدت میں سالانہ بنیاد پر 2.2 فیصد کا اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: NASA
روشنی اور اقتصادیات
مصنوعی روشنی کے استعمال میں اضافے کو عالمی اقتصادی ترقی کے ساتھ بھی نتھی کیا جاتا ہے۔ یہ مختلف ملکوں کی مجموعی قومی پیداوار کا ایک طرح سے اشاریہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی روشنیوں کا انتہائی زیادہ استعمال حالیہ برسوں میں ابھرتی ہوئی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں دیکھا گیا ہے۔
تصویر: NASA/GSFC/Craig Mayhew & Robert Simmon
حیات کی داخلی گھڑی روشنی سے تبدیل
مصنوعی روشنیوں نے انسانوں اور جانوروں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ شہروں میں رہنے والے پرندے بھی اپنی نیند کے قدرتی طریقے میں تبدیلی لانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی طرح مصنوعی روشنیوں نے پودوں کے اندرونی نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
اسمارٹ لیمپس
یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ کیا شہروں میں ساری رات گلیوں اور سڑکوں کی روشنیوں کو جلانا ضروری ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ لیڈ روشنیاں زیادہ بجلی استعمال نہیں کرتیں لیکن پھر بھی یہ ضروری ہے کہ رات کو غیر ضروری روشنیاں گُل کر دینا بہتر ہے۔ زیادہ روشنی کی جگہ کم روشنی والی ایمرجنسی لائٹ سے بھی گزارہ کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: DW/L. Hansen
9 تصاویر1 | 9
طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہر کرسٹوفر کِیبا کہتے ہیں، ''جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں۔‘‘
امریکہ میں 2020ء میں مکمل کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق ایسے بچے یا نوجوان جو بہت زیادہ مصنوعی روشنیوں والے علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں نیند کم آتی ہے اور جذباتی نوعیت کے مسائل کا سامنا بھی زیادہ رہتا ہے۔ کرسٹوفر کِیبا کے مطابق، ''مصنوعی روشنیوں کا متعارف کرایا جانا ان سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلیوں میں سے ایک ہے، جن کی ہم انسان زمین کے کرہ حیاتی میں وجہ بنے ہیں۔‘‘
اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مطابق زمین پر انسانی طرز زندگی کے باعث کرہ ارض ہر سال دو فیصد کی شرح سے روشن تر ہوتا جا رہا ہے۔
تاریکی تو جانوروں اور پودوں کو بھی پسند ہے
زمین پر حیاتیاتی اقسام میں سے انسانوں کے علاوہ بھی کئی انواع ایسی ہیں، جنہیں خود کو رات کے وقت مصنوعی روشنی کا عادی بنانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
قطبی روشنیوں کی حسین تصاویر
ایک مشہور ویب سائٹ ہر سال شمالی اور جنوبی قطبی روشنیوں کی بنائی گئی بہترین تصاویر کا انتخاب کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ کا نام Capturetheatlas.com ہے۔ رواں برس کی شاہکار تصاویر درج ذیل ہیں:
تصویر: Nico Rinaldi/Capture the Atlas
آفاقی رقص
بحرِ بیرنٹس کا پتھریلا ساحل، جو جزیرہ نما کوالا کا حصہ ہے اور شمال مغربی روس میں واقع ہے۔ یہ تصویر سیرگئی کورولیف نے کھینچی۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندر میں سے ابھرے بلند پہاڑ اور پتھریلی سرزمین نے ان پر جادوئی اثر کیا تھا۔ کورولیف نے یہ تصویر کئی کوششوں کے بعد بنائی۔
تصویر: Sergey Korolev/Capture the Atlas
شیر چٹان
اسٹریلیا کے علاقے جنوبی تسمانیہ میں ’لائن راک‘ یا شیر چٹان کی یہ تصویر بین میز نے کیمرے سے محفوظ کی۔ اس میں ایک فلکیاتی پس منظر لائن راک کو ایک نیا حسن دے رہا ہے۔ نظر آنے والی فلکیاتی روشیوں کا تعلق ملکی وے کہکشاں سے ہے۔
تصویر: Ben Maze/Capture the Atlas
قطبی شب
اس تصویر کا دلکش منظر قطبِ جنوبی کی ایک رات کا ہے، جب درجہ حرارت منفی اسی ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اس کے بنانے کا مقام آئس کیوب نیوٹرینو آبزرویٹری ہے۔ اس رصد خانے کی دوربین بھی کیمرے کے ساتھ جوڑی گئی تھی۔ تصویر کیمرہ میں ایبرہارٹ کی مہارت کا نمونہ ہے۔ کئی مہینوں کی محنت اور بے شمار کوششوں کے بعد وہ اس منظر کو کلک کرنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Benjamin Eberhardt/Capture the Atlas
لوفوٹین کی برفانی روشنیاں
لوفوٹین ناروے کے جزائر کا مجموعہ ہے۔ یہ اپنی قدرتی مناظر کے لیے مشہور ہیں۔ اس سے چند سو کلومیٹر کی مسافت پر قطبی دائرہ ہے۔ یہ دنیا کے خوبصورت جزائر میں شمار ہوتے ہیں۔ ناردرن لائٹس یا شمالی روشنیاں آسانم سے ان جزائر سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ تصویر ڈینس ہیلوگ کی مہارت کا نمونہ ہے۔
تصویر: Dennis Hellwig/Capture the Atlas
’گرے ہوئے بھوت‘
فن لینڈ کے علاقے لیپ لینڈ سے بھی ناردرن لائٹس یا شمالی روشنیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ تصویر پیٹری پؤرونن نے منفی چوبیس ڈگری سینٹی گریڈ میں کھڑے ہو کر بنائی۔ انہوں نے اس تصویر میں آدھے چاند کی روشنی میں ٹنوں وزنی دس میٹر لمبے برفانی تودے جو کسی موم بتی کی طرح دکھائی دے رہے ہیں کو کلک کیا۔ پؤرونن نے کئی گھنٹوں کے انتظار سے یہ منظر انتہائی شاندار انداز میں کیمرے سے محفوظ کیا ہے۔
تصویر: Petri Puurunen/Capture the Atlas
ٓسمان پر وائی کنگز
نیکو رینالڈی نے کیمرے سے یہ تصویر آئس لینڈ کے ایک مقام سے کھینچی۔ تصویر میں رینالڈی نے سیاہ آتش فشاں کی ریت کا تودہ، جسے ہوا نے تخلیق کیا تھا، اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر لیا۔ سارا قدرتی منظر ناقابلِ بیان حسن رکھتا ہے۔
تصویر: Nico Rinaldi/Capture the Atlas
آسمانی روشنیوں کا ایک اور مقام
کینیڈا کے صوبے سیسکیچوان سے بھی شمالی روشنیوں کا منظر دیکھنا ممکن ہے۔ یہ تصویر خاتون فوٹو گرافر ژینین ہولوواٹؤک نے گزشتہ برس مئی میں کھینچی تھی۔ چاند بادلوں کو روشن کیے ہوئے ہے اور ناردرن لائٹس بھی منظر میں موجود ہیں۔ ہولووٹؤک نے تصویر کھینچنے کے اس لمحے کو جادوئی قرار دیا ہے۔
تصویر: Jeanine Holowatuik/Capture the Atlas
قدرت کا رنگ
ورجینیا یلیرا نے یہ تصویر نومبر میں تیز یخ بستہ ہوا والی رات میں کھینچی۔ اس تصویر کا مقام بھی آئس لینڈ ہے۔ انہوں نے اس لمحے کو اپنی زندگی کا ایک یادگارترین لمحہ قرار دیا۔ یلیرا کے مطابق برفانی ہوا میں آبشار سے گرتا پانی شمالی لائٹس کو کیمرے کی آنکھ سے پکڑنے کا ایک بڑا چیلنج تھا۔
تصویر: Virginia Yllera/Capture the Atlas
8 تصاویر1 | 8
مثلاﹰ کورلز یا مونگے کی چٹانیں اس وجہ سے حسب معمول اپنی افزائش نسل نہیں کر پاتیں۔ ہجرت کرنے والے پرندوں کی اسی وجہ سے سفر کی سمت کا تعین کرنے والی حس متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر اسی بنا پر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے والے نئے بچے ساحلی علاقوں سے پانی کی طرف جانے کے بجائے مزید خشکی کی طرف جانے لگتے ہیں، جہاں وہ مر جاتے ہیں۔
رات کے وقت مصنوعی روشنی حشرات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک سائنسی مطالعے کے مطابق صرف جرمنی میں ہی ہر موسم گرما میں رات کے وقت مصنوعی روشنی کے نتیجے میں ایسے تقریباﹰ 100 بلین چھوٹے چھوٹے حشرات مر جاتے ہیں، جن کا تعلق رات کے وقت فعال رہنے والے حشرات کی قسموں سے ہوتا ہے۔
جہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن یا زیرگی بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں۔
رات کے وقت مصنوعی روشنی کے اثرات تناور درخت بھی محسوس کرتے ہیں اور قدرتی شبینہ تاریکی میں رہنے والے درختوں کے مقابلے میں ان پر کلیاں جلد آنے لگتی ہیں جبکہ پتے معمول سے کافی زیادہ تاخیر سے جھڑتے ہیں۔
م م / ع ا (ٹم شاؤئن برگ)
روشنیوں کے حیران کن ڈیزائن
دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں روشنیوں کے تہوار مقبولیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ چوک، سڑکیں، پل اور عمارتیں کسی دوسری دنیا کا حصہ محسوس ہوتی ہیں۔ ایک نظر روشنیوں سے سجے فن پاروں پر۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرینکفرٹ
بینکوں کہ وجہ سے مشہور اس شہر کے بیچوں بیچ دریائے مائن گزرتا ہے جبکہ تیرہ سے اٹھارہ مارچ دو ہزار سولہ تک بلندو بالا روشن مجمسے افق پر رنگ بکھیر دیں گے۔ اس شہر میں یہ میلا ہر دو سال بعد سجتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
بالٹیمور
اٹھائیس مارچ سے تین اپریل تک امریکی ریاست میری لینڈ کا شہر بالٹیمور عروس البلاد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بندرگاہ کے اندرونی حصے کو ایک ایسا اسٹیج بنا دیا جاتا ہے، جہاں روشنیوں سے بنے آرٹ کے نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Light City Baltimore
سیئول
لاکھوں ایل ای ڈی روشنیوں کی مدد سے درختوں اور جانوروں کے مجسمے ایک غیر حقیقی جنگل کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے دارالحکومت میں ہر سال اس میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
تصویر: Korea Tourism Organization
ماسکو
روس کے شہر ماسکو میں ہر سال موسم گرما کے اختتام پر لائٹ فیسٹیول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے لائٹ آرٹسٹ عمارتوں کو دلفریب رنگوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Vilf
لندن
برطانیہ میں رواں برس پہلی مرتبہ لیومئیر لندن فیسٹیول کے دوران دریائے ٹیمز کے شہر کی بڑی عمارتوں کو نئی روشنیوں میں دیکھا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Arrizabalaga
یروشلم
پچیس مئی سے دو جون دو ہزار سولہ تک یروشلم کا قدیمی حصہ بھی جگمائے گا۔ تھری ڈی لائٹ منصوبے کی مدد سے یہودیوں، مسلمانوں اور مسیحیوں کا مرکز کا سمجھے جانے والے اس شہر کے بارے میں نقطہ نظر تبدیل کیا جائے گا۔
تصویر: Lights in Jerusalem
نیو اورلینز
سن دو ہزار اٹھارہ میں امریکی ریاست مسیسیپی کا یہ شہر اپنی 300ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ روشنیوں کی مدد سے سجاوٹ تقریباب کا مرکزی حصہ ہو گی۔ یہ شہر سن دو ہزار چودہ سے لائٹ فیسٹیول کا انعقاد کرتا آ رہا ہے۔
تصویر: Council New Orleans
گینٹ
بیلجیئم کے شہر گینٹ میں ہونے والے سالانہ لائٹ فیسٹیول میں پانچ لاکھ سے زائد افراد شرکت کرتے ہیں۔ اس میلے کا انعقاد ہر تیسرے برس کیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں لائٹ آرٹ ڈیزائنروں کی طرف سے چوالیس نمونے پیش کی گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مونٹریال
ہر سال فروری اور مارچ میں کینیڈا کے اس شہر میں حیران کن لائٹ شو پیش کیے جاتے ہیں۔ رواں برس دس لاکھ سے زائد افراد نے یہ شو دیکھے اور ان سے لطف اندوز ہوئے۔
تصویر: Montreal en Lumiere
برلن
اکتوبر کے مہینے میں جرمنی کے دارالحکومت میں روشنیوں کے دو تہواروں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس رنگا رنگ میلے کو دیکھنے کے لیے جرمنی بھر سے لوگ وہاں پہنچتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
سڈنی
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والا لائٹ فیسٹیول ہر سال مزید مقبولیت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ برس اس تہوار میں تقریبا سترہ لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔ رواں برس اس کا انعقاد ستائیس مئی سے اٹھارہ جون تک جاری رہے گا۔