توانائی کا بحران، تحفظ ماحول کے عالمی اقدامات آزمائش میں
14 نومبر 2022جہاں عالمی رہنما اور مذاکرات کار مصر کےسیاحتی مقام شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کانفرنس میں بنیادی طور پر مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں، وہیں موحولیاتی تبدیلیوں کی کارکردگی کا تازہ ترین انڈیکس عالمی ماحولیاتی تحفظ کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات کی موجودہ حالت کا جائزہ لے رہا ہے۔
اس بارے میں پیر کو جاری ہونے والی رپورٹ ماحولیات سے متعلق ایک این جی او جرمن واچ اور نیو کلائمیٹ انسٹی ٹیوٹ نے گلوبل کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک کے ساتھ مل کر شائع کی ہے۔ یہ رپورٹ 60 ممالک اور یورپی یونین کے ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کا جائزہ لیتی ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں، جو دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
ماحولیاتی کانفرنس COP26 میں کیے گئے بڑے وعدوں کا کیا ہوا؟
رپورٹ کے مصنفین لکھتے ہیں کہ یوکرین میں روسی جنگ سے پیدا ہونے والا عالمی توانائی بحران یہ واضح کرتا ہے کہ دنیا کا انحصار کتنی بڑی حد تک فوسل فیول پر ہے۔ ان منصفین میں نیو کلائمیٹ انسٹی ٹیوٹ کے بانی نکلاس ہون بھی ہیں۔
انہوں نے کہا،''توانائی کا بحران ظاہر کرتا ہے کہ معاشی طور پر آگے بڑھنے کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں میں کمی لانے پر سختی سے عمل پیرا ہونا سب سے معقول طریقہ ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ قابل تجدید توانائی منصوبے کسی بھی نئے تعمیر شدہ روایتی پاور پلانٹ کے مقابلے میں کم لاگت سے تیار ہوتے ہیں، اور توانائی کے شعبے کی کارکردگی میں بہتری کے لیے کی جانےوالی سرمایہ کاری میں آج جیسا منافع اس کے قبل کبھی بھی نہین دیکھا گیا۔
ماحولیاتی تحفظ میں ڈنمارک سرفہرست
پچھلے سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی تحفظ ماحول کی عالمی درجہ بندی میں پہلی تین جگہیں خالی رہیں - کوئی بھی ملک 2015 ء میں عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے پیرس میں طےکیے گئے ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کافی کام نہیں کر رہا ۔
فوسل ایندھن سے کاربن کے اخراج میں زبردست اضافے کا امکان
تاہم اس سلسلے میں جو بھی کام ابھی تک کیا گیا، اس کی قیادت ایک بار پھر ڈنمارک کر رہا ہے۔ ایک چھوٹا سا شمالی یورپی ملک اس ضمن میں مقرر کردہ تقریباً تمام انفرادی زمروں میں آگے ہے اور یہ وہ واحد ملک ہے جس کے پاس تحفظ ماحول کے ایک ''ترجیحی‘‘ ملک میں ''انتہائی ترجیح ‘‘والی بین الاقوامی ماحولیاتی پالیسیاں پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ڈنمارک نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے نقصان اور بربادی کے لیے رقم فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن ماحولیاتی انڈیکس کے مطابق، توانائی کی کارکردگی کے لحاظ سےڈنمارک کو ابھی بھی کچھ کام کرنا باقی ہے، یہ ایک کمی ہے جو اس کے 2025 ءکے آب و ہوا کے اہداف کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
چلی، مراکش اور ہندوستان جیسے ممالک نے بھی اس سال کی ماحولیاتی انڈیکس میں چھٹے سے آٹھویں نمبر پر رہتے ہوئے اس سال بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
نئی موحولیاتی انڈیکس پر امریکہ اور آسٹریلیا کی درجہ بندی میں بہتری
جرمن واچ کی پالیسی مشیر اور رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک تھیا اُلرش نے کہا کہ اس سال امریکہ اور آسٹریلیا سے رپورٹ کرنے کے لیے اچھی خبریں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''صدر جو بائیڈن کے بڑے سرمایہ کاری پیکج نے امریکہ کو کچھ جگہوں پر آگے بڑھایا ہے۔ ماحولیاتی پالیسی کے اہداف کو اب عمل درآمد کے اقدامات کے ساتھ مظبوط کیا گیا ہے۔یہ ایک اچھی علامت ہے۔‘‘
کیا ماحولیاتی کارکن احتجاج کی قانونی حدیں پھلانگ رہے ہیں؟
تاہم امریکہ اب بھی چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کرتا ہے۔ امریکہ 2019 ء میں زہریلی گیسوں کے عالمی اخراج کے گیارہ فیصد جب کہ چین ستائیس فیصد کے لیے زمہ دار تھا۔ دونوں ممالک ماحولیاتی انڈیکس پر سب سے کم اسکور کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔
تھیا اُلرش نے کہا کہ آسٹریلیا کی حکومت میں حالیہ تبدیلی نے اس کی ماحولیاتی پالیسیوں میں بھی بہتری لائی ہے - لیکن انہوں نے امید ظاہر کی کہ ''اس سے قابل تجدید ذرائع کی توسیع اور کوئلے کےاستعمال میں مرحلہ وار کمی میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘
چین کا کوئلے کی طاقت پرانحصار
تازہ ترین ماحولیاتی انڈیکس میں چین کو سب سے زیادہ تنزلی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو تیرہ درجے نیچے گر کر51 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ اگرچہ بیجنگ قابل تجدید توانائیوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے، لیکن کاربن کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے اس کی درجہ بندی بہت خراب ہے۔
عالمی ماحولیاتی کانفرنس: جزائر ممالک کا بھارت اور چین سے زرتلافی کا مطالبہ
تھیا اُلرش کے بقول، ''چین میں اس وقت کوئلے سے چلنے والے بہت سے نئے پاور پلانٹس بنائے جا رہے ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پاور پلانٹس کو کئی سالوں یا دہائیوں تک چلنا پڑے گا تاکہ اس سرمایہ کاری کی مکمل ادائیگی ہو جائے۔‘‘
انہون نے کہا کہ یہ صورتحال دنیا کی ماحولیاتی تحفط کے لیے کوششوں کے سلسلے میں مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ زمین جتنی تیزی سے گرم ہوتی جارہی ہے، اتنی ہی تیزی سے ہم ڈھلوان پرنیچے جارہے ہیں، جیسے قطبی برف کی چادروں کے تیزی سے پگھلنے تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے بعد یہ ایک بے قابو، اکثر ناقابل واپسی قدرتی رفتار کو متحرک کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پورے سیارے پر بہت زیادہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جرمنی، ایل این جی کی درآمدات میں کمی، کوئلے کے استعمال کی تجدید
جرمن واچ کے جان برک کے مطابق چانسلر اولاف شولز کی نئی انتظامیہ کے تحت مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمد میں وسیع پیمانے پر توسیع اور کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس سے پیداوار میں اضافہ جرمنی کی ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیوں کا بہتر جائزہ لینے سے روکتا ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں 2017 ء اور 2021 ء کے درمیان جرمنی میں فی کس اخراج میں کمی کو مثبت قرار دیا گیا۔
مجموعی طور پر، جرمنی کی گزشتہ ماحولیاتی انڈیکس کے مقابلے میں اس مرتبہ درجہ بندی میں تین درجوں کی کمی آئی ہے۔ پچھلے سالوں میں نافذ کی گئی ماحولیاتی پالیسیوں کے نقصانات اب ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ برک نے نشاندہی کی کہ ونڈ انرجی سیکٹر کی توسیع میں میرکل حکومت کے دوران ہی بڑے پیمانے پر کمی آ گئی تھی۔ جرمنی کے آب و ہوا کے اہداف کو پورا کرنے میں بڑے پیمانے پر ناکامی ٹرانسپورٹ اور عمارت کے شعبوں میں بھی واضح ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں، متاثرہ ممالک کو کون ادائیگی کرے گا؟
یورپی یونین کی ماحولیاتی پالیسیوں کی درجہ بندی 'اعلی‘ سے 'کم تر‘
مجموعی طور پر یورپی یونین کی کلائمیٹ انڈیکس میں پوزیشن میں تین درجے کا اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ اپنی انیسویں پوزیشن کے ساتھ انڈیکس میں ''اعلی‘‘ کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس کی درجے بندی میں پہلے کی نسبت بہتری ماحولیاتی قانون سازی کے ایک پیکیج کے تحت ہے، جس کا مقصد 2030ء تک یورپی یونین میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کم از کم 55فیصد تک کمی لانا ہے۔
تاہم مجموعی طور پر یہ ماحولیاتی انڈیکس انفرادی رکن ممالک کے لیےملے جلے نتائج کا حامل ہے۔ اس میں نو ممالک کو ''اعلی‘‘ اور سات ''کم‘‘درجہ دیا گیا ہے، پولینڈ اور ہنگری بھی ''انتہائی کم‘‘ کی درجہ بندی والے ممالک میں شامل ہیں۔ یہ بھی قابل ذکر ہےکہ جب کہ اسپین تمام آزمائشی پیمانوں میں بہتری کی بدولت اپنی درجہ بندی میں گیارہ درجوں کی بہتری لا کر تئیسویں نمبر پر آگیا جبکہ فرانس اپنی کمزور ماحولیاتی پالیسیوں اور قابل تجدید توانائی کے شعبے کی سست رفتار توسیع کی وجہ سے گیارہ درجوں کی کمی کے ساتھ 28 ویں نمبر پر آگیا۔
جرمن واچ کی پالیسی مشیر اور رپورٹ کے شریک مصنفین میں سے ایک تھیا اُلرش نے کہا، ''توجہ قابل تجدید توانائیوں پر ہونی چاہیے، ورنہ ہم مستقبل میں اس سے بھی بڑے بحرانوں کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘
ش ر ⁄ ک م (جینیٹ کوینک)
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔