توہین اسلام کا الزام، بنگلہ دیشی کارکن ایئر پورٹ سے گرفتار
مقبول ملک اے ایف پی
26 دسمبر 2017
بنگلہ دیشی پولیس نے سوشل میڈیا پر بہت سرگرم ایک ایسے پچیس سالہ شہری کو ڈھاکا ایئر پورٹ سے گرفتار کر لیا، جس پر اسلام اور پیغمبر اسلام کی توہین کے الزامات ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزم ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں تھا۔
اشتہار
ملکی دارالحکومت ڈھاکا سے منگل چھبیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق حکام نے بتایا کہ اس مقامی باشندے کا نام اسدالزمان نور ہے اور عمر پچیس برس، جسے اپنے خلاف اسلام اور پیغمبر اسلام کی مبینہ توہین کے الزامات کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیشی پولیس کے انسپکٹر محمد شاہداللہ نے بتایا کہ اس ملزم کو، جو یوٹیوب پر اپنے چینل کے ذریعے اسد نور کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، پیر پچیس دسمبر کی رات ڈھاکا کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے حراست میں لیا گیا، جہاں وہ بیرون ملک روانگی کے لیے ایک مسافر طیارے میں سوار ہونے والا تھا۔
شاہداللہ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اسد نور پر الزام ہے کہ اس نے اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن کے بارے میں برے تبصروں کے ذریعے بہت سے لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔‘‘
اس بنگلہ دیشی باشندے کے خلاف ملک کے جنوبی ساحلی قصبے امتالی میں اسی سال سینکڑوں کی تعداد میں عام مسلمانوں نے اس وقت احتجاجی مظاہرے بھی کیے تھے، جب اس کی طرف سے مبینہ توہین اسلام کے بعد ایک مقامی اسلامی مدرسے کے سربراہ نے اسد نور کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کرا دیا تھا۔ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ گرفتاری کے بعد اسد نور پر بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ سے متعلق انتہائی سخت قوانین کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور قصور وار ثابت ہو جانے پر اسے ممکنہ طور پر چودہ برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے کئی گروپوں کا الزام ہے کہ ڈھاکا میں ملکی حکومت ان قوانین کے ذریعے اختلافی سوچ رکھنے والے اپنے ناقدین کو چپ کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس دوران ان سیکولر بلاگرز کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے، جو سوشل میڈیا پر مذہب پر تنقید کرتے ہیں۔
2013ء میں بنگہ دیش میں چار ایسے مقامی بلاگرز کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جن کے خلاف اسلام پسند گروپوں نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ان سرگرم سوشل میڈیا کارکنوں کو سزائے موت سنائی جائے۔ بعد ازاں تاہم پولیس نے ان چاروں کو رہا کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں گزشتہ چند برسوں کے دوران کئی لادین یا سیکولر بلاگرز کو انتہا پسند مسلم گروپ نشانہ بنا چکے ہیں۔ اس دوران قریب ایک درجن بلاگرز، پبلشرز اور سرگرم کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے جبکہ کئی دیگر اپنی جانیں بچانے کے لیے ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
2015ء انٹرنیٹ پر سرگرم افراد اور بلاگرز کے لیے کیسا رہا
رواں برس کے دوران کم از کم اٹھارہ ایسے افراد کو قتل کیا گیا، جو انٹرنیٹ پر سرگرم تھے۔ ان میں بلاگرز اور سٹی جرنلسٹ شامل ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں شام اور بنگلہ دیش میں ہوئیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/A. Abbas
شام سرفہرست
پیرس میں موجود صحافیوں کی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق رواں برس کے دوران انٹرنیٹ پر سرگرم افراد کی سب سے بڑی تعداد کو شام میں نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران انٹرنیٹ پر سرگرم کل دس افراد قتل ہوئے۔ جنگ کے شکار اس ملک میں یکم جنوری کو ضرار بن ازور کو قتل کیا گیا اور اس نوعیت کا آخری قتل ستائیس اکتوبر 2015ء کو جمعہ الاحمد کا ہوا۔ یہ دونوں سٹی جرنلسٹ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Lawler
بنگلہ دیش میں بلاگرز کا قتل
بنگلہ دیش میں رواں سال کے دوران مذہب کے خلاف لکھنے پر چار ’ملحد بلاگرز کو قتل کیا گیا۔ ان میں ابیجیت روئے کو فروری کو قتل کیا گیا۔ اس کے بعد مزید تین بلاگروں وشیق الرحمن بابو، نیلوئے نیل اور آننتا بیجوئے داس کو بھی ایک ہی طرح کے حملوں میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس کے علاوہ ہم جنس پرستی اور لادینی کتابوں کے ایک ناشر کو بھی قتل کیا گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Uz Zaman
برازیل میں بلاگر کا سر قلم
2015ء کے دوران اٹھارہ مئی کو برازیل کے بلاگر ایوانی ژوزے میٹزکرواس کو قتل کیا گیا۔ پہلے اسے نا معلوم افراد کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، سر کی جلد نوچ ڈالنے کے بعد اس کا سر قلم کر دیا گیا۔ میٹزکرواس برازیل میں بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات کے خلاف تحقیقات کر رہے تھے۔
تصویر: Facebook
عراقی سٹی جرنلسٹ
عراق میں سٹی جرنلسٹ زہیر کنان النحاس کو نو اگست 2015ء کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس نے آئی ایس کی تباہ شدہ گاڑی کی تصویر شائع کر دی تھی۔ یہ واقعہ موصل میں پیش آیا تھا۔ النحاس کی تصویر انٹرنیٹ پر بہت زیادہ مقبول ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
پاکستان میں سبین محمود کا قتل
پاکستان میں انٹرنیٹ ایکٹویسٹ اور شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی سبین محمود کو چوبیس اپریل کو کراچی میں گولیاں ماری گئیں۔ وہ اپنی نجی کار میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد اپنے گھر جا رہی تھیں۔ سبین محمود پاکستانی صوبہ بلوچستان میں ملکی فوج کے کردار پر تنقید کے حوالے سے بھی مشہور تھیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
IS critic beheaded in Turkey
Syrian citizen journalist Ibrahim Abd al-Qader, who was known as a campaigner against the so-called 'Islamic State' in Syria, was shot and beheaded on October 30 in Turkey. Friends of al-Qader blamed IS for the slaughter.
تصویر: picture-alliance/dpa
آئی ایس ناقد صحافی
شامی سٹی جرنلسٹ ابراہیم عبدالقدیر نام نہاد ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف اپنی قلمی سرگرمیوں کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے تھے۔ تیس اکتوبر 2015ء کو ترکی میں پہلے ان کے سر میں گولی ماری گئی اور پھر ان کا سر تن سے جدا کر دیا گیا۔ ان کا ساتھیوں کا خیال ہے کہ اس قتل کے پیچھے آئی ایس کا ہاتھ ہے۔