’توہین رسالت‘، پاکستان میں ایک اور مسیحی گرفتار
15 نومبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لاہور سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بروز ہفتہ بتایا کہ قیصر ایوب کو لاہور سے گرفتار کر کے تلہ گنگ کی ایک جیل میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس مسیحی پاکستانی شہری کے خلاف ’توہین رسالت‘ کی شکایت تین برس قبل تلہ گنگ میں ہی کی گئی تھی، اس لیے ایوب کو پولیس کی نگرانی میں وہاں منتقل کیا گیا ہے۔
مقامی پولیس اہلکار خرم حسین نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قیصر ایوب پر 2011ء میں عائد ہونے والے اس الزام کی صداقت جاننے کے لیے تفتیشی عمل شروع کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوب کو اس کے آبائی شہر لاہور سے گرفتار کرنے کے کچھ دنوں بعد ہی تلہ گنگ پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
قیصر ایوب کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ بتائی گئی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی مسیحی ویب سائٹ پر مبینہ ’توہین رسالت‘ کا مرتکب ہوا، جس کی وہ نگرانی کر رہا تھا۔ خرم حسین کے بقول، ’’2011ء میں تلہ گنگ کے ایک رہائشی نے شکایت درج کرائی تھی کہ ایوب نے اپنی ویب سائٹ پر پیغمبر اسلام کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی تھی۔‘‘
پولیس کے مطابق اس الزام کے بعد کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ایوب روپوش ہو گیا تھا۔ پولیس اہلکار خرم حسین نے مزید کہا، ’’تلہ گنگ کی ایک سیشن کورٹ نے 2012ء میں ملزم قیصر ایوب کو مفرور قرار دے دیا تھا، جس کے بعد سے پولیس نے اس کی تلاش کے لیے آپریشن شروع کر رکھا تھا۔‘‘ ایک اور اعلیٰ پولیس اہلکار مبین احمد نے بھی اس مسیحی کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ پاکستان میں ’توہین مذہب یا رسالت‘ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، یہاں تک کہ ایسے الزامات کے ثابت ہونے سے قبل ہی اس مسلم اکثریتی ملک کے عوام ملزم کو ماورائے عدالت قتل بھی کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال چار نومبر کو رونما ہونے والا وہ واقعہ بھی ہے، جس میں مسلمانوں کے مشتعل ہجوم نے کوٹ رادھا کشن میں ایک مسیحی حاملہ خاتون اور اس کے شوہر کو ہلاک کر دیا تھا، جن پر ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے تھے۔