توہین عدالت: وزیراعظم کی اپیل کی سماعت
9 فروری 2012سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اپیل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وزیراعظم ججوں کی بحالی کے بدلے ریلیف مانگ رہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اگر سوئس حکام کو صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولنےکے لیے خط لکھ دیں تو معاملہ ختم ہو جائے گا اور توہین عدالت کا نوٹس بھی واپس لے لیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کو ان مقدمات کو دوبارہ کھولنے میں پہل کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس نے دو سال اور تین ماہ تک صبر و تحمل سے کام لیا ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن نے نشاندہی کی کہ سوئس حکام نے 2008 ء میں صدر آصف علی زرداری کو حاصل استثنی کی بناء پر خود ہی یہ مقدمات بند کر دیے تھے اور یہ کہ رقوم کی ملکیت کا دعوی کرنے والی کوئی تیسری پارٹی بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا، ’’وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ کسی بھی ادارے کو کمزور نہ سمجھیں۔ یہ رقم ہماری جیب میں نہیں آئے گی بلکہ یہ قوم کا پیسہ ہے، جو وہ واپس چاہتی ہے۔‘‘
وزیراعظم گیلانی کے وکیل اعتزاز احسن نے بدھ آٹھ فروری کو 200 صفحات پر مشتمل اس اپیل میں پچاس سے زائد قانونی نکات اٹھائے تھے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت کا آٹھ رکنی بینچ اس اپیل کی سماعت کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ نے ملکی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 13 فروری کو عدالت میں طلب کر رکھا ہے تاکہ ان پر فرد جرم عائد کی جاسکے۔
وزیراعظم پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور ان پر فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں نہ صرف انہیں چھ ماہ قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے بلکہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے بھی نااہل ہو جائیں گے۔
پاکستان کے بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے دباؤ ملک کی غیر مقبول حکومت کو بالآخر جلد انتخابات پر مجبور کر سکتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم سزا سے بچنا چاہتے ہیں تو انہیں سوئس حکام کو خط لکھنا ہی پڑے گا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: افسر اعوان