توہین مذہب: عدالت نے سزائے موت پانے والے ملزم کو بری کر دیا
7 اکتوبر 2020
پاکستانی صوبہ پنجاب کی اعلیٰ ترین عدالت نے توہین مذہب کے ایک مقدمے میں ملزم کو سنائی گئی موت کی سزا ختم کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا۔ مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والے ملزم کو سزائے موت ایک ماتحت عدالت نے سنائی تھی۔
اشتہار
صوبہ پنجاب کی اعلیٰ عدالت لاہور ہائی کورٹ نے ساون مسیح نامی ملزم کو توہین مذہب کے ایک مقدمے میں سنائی گئی موت کی سزا ختم کر دی۔ ملزم چھ برس سے بھی زائد عرصے سے جیل میں اپنی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیل پر فیصلے کا منتظر تھا۔ اسے یہ سزا ایک ماتحت عدالت نے سنائی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی تصدیق عدالت کے ترجمان سید مدثر حسین نے بھی کر دی۔ اس فیصلے کے حوالے سے مسیحی برادری کی ایک غیر حکومتی تنظیم کے سربراہ جوزف فرانسس نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ یہ ہائی کورٹ کا ایک بہادرانہ فیصلہ ہے۔
جوزف فرانسس کی تنظیم توہین مذہب کے مقدمات میں ملزم نامزد کیے جانے والے مسیحی باشندوں کو قانونی معاونت کے ساتھ ساتھ وکیل بھی مہیا کرتی ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت مسیحی خوف زدہ
02:24
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں سزا پانے والے ساون مسیح کی رہائی ایک بہادرانہ فیصلہ اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ اس نوعیت کا دوسرا مقدمہ ہے، جس میں مبینہ ملزم کے لیے سزائے موت منسوخ کرتے ہوئے عدالت نے اس کی رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ ساون مسیح کو عدالتی فیصلے کی روشنی میں کب رہا کیا جائے گا۔ تاہم جوزف فرانسس نے بتایا کہ رہائی جلد ممکن ہے۔ ان کے مطابق ساون کے خاندان کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اس باعث وہ رہائی کے بعد چھپ کر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گا۔
ساون مسیح کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ سن 2013 میں دائر کیا گیا تھا۔ ساون مسیح پر عوامی سطح پر الزام لگائے جانے کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں ایک مشتعل ہجوم نے مسیحی برادری کی بستی جوزف کالونی میں ایک سوسے زائد مکانات جلا دیے تھے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباﹰ ایک درجن مسیحی شہری توہین مذہب کے الزامات میں ماتحت عدالتوں سے سزائے موت کے حکم سن چکے ہیں۔ یہ سب ابھی تک جیلوں میں ہیں اور ان سزاؤں کے خلاف دائر کردہ اپنی اپیلوں پر فیصلوں کے منتظر ہیں۔
قبل ازیں پاکستانی سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو بھی اسی طرح کے ایک مقدمے میں رہا کر دیا تھا۔ وہ رہائی کے بعد اب اپنے خاندان کے ساتھ بیرون ملک آباد ہو چکی ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔
مختلف واقعات میں بے بنیاد الزامات کے تحت سخت گیر عقیدے کے حامل مشتعل گروہ کئی افراد کو ہلاک بھی کر چکے ہیں۔ پنجاب کے صوبائی گورنر سلمان تاثیر کو بھی ان کے ایک محافظ پولیس اہلکار نے اس لیے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو سنائی گئی سزا کے مخالف تھے۔
ع ح / م م (ڈی پی اے)
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔