توہین مذہب: پاکستانی لیکچرار جنید حفیظ کے لیے سزائے موت
21 دسمبر 2019
پاکستان کی ایک عدالت نے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں گزشتہ چھ برسوں سے زیر حراست لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر اسلام مخالف نظریات پھیلانے کے مرتکب ہوئے تھے۔
اشتہار
پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنید حفیظ کو ان کے خلاف مقدمے میں سزائے موت کا فیصلہ ایک عدالت نے آج ہفتہ اکیس دسمبر کو سنایا۔ گزشتہ تقریباﹰ چھ برسوں سے جیل میں بند جنید حفیظ کو زیادہ تر اس لیے ایک علیحدہ کمرے میں رکھا گیا تھا کہ دیگر قیدیوں کے ساتھ رکھے جانے کی صورت میں ان پر جیل کے اندر ہی قاتلانہ حملہ بھی کیا جا سکتا تھا۔
اس کے علاوعہ سکیورٹی خدشات کی بناء پر ان کے خلاف آج ہفتے کے مقدمے کی سماعت بھی اسی جیل میں کی گئی، جہاں وہ قید ہیں۔ جنید حفیظ کے وکیل دفاع شہباز گورمانی کے مطابق ان کے مؤکل کو سزا سنانا ایک غلط فیصلہ ہے، جس کے خلاف وہ اپیل کریں گے۔
2013ء میں گرفتاری
جنید حفیظ کا تعلق صوبہ پنجاب ہی کے ایک شہر راجن پور سے ہے اور وہ انگریزی زبان و ادب کے ایک لیکچرار ہیں۔ وہ 2010ء میں ایک امریکی یونیورسٹی میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان گئے تھے۔ انہیں 2013ء میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ملتان کی ایک یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرار کے طور پر پڑھاتے تھے۔
وکیل استغاثہ اطہر بخاری کے مطابق جنید حفیظ نے پاکستانی ماہرین تعلیم کے لیے ایک خصوصی پروگرام کے تحت تین سال امریکا میں گزارے تھے اور تفتیشی ماہرین کو اس لیکچرار کے لیپ ٹاپ سے دوران تفتیش مذہب مخالف مواد بھی ملا تھا۔ انہیں سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے علاوہ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔
انتہائی متنازعہ قانون
پاکستان میں توہین مذہب کے جس قانون کے تحت جنید حفیظ کو سزائے موت سنائی گئی ہے، وہ ایک انتہائی متنازعہ قانون ہے، جس کے تحت کسی بھی ملزم کو جس پر خدا، قرآن یا پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کا الزام ہو، اس کا جرم ثابت ہو جانے پر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس متنازعہ قانون کا کافی غلط استعمال بھی ہوتا ہے اور کئی واقعات میں لوگ ذاتی عداوت یا محض بدلہ لینے کے لیے بھی کسی بھی مسلم یا غیر مسلم شہری پر توہین مذہب کا الزام لگا دیتے ہیں۔
سزا پر عمل درآمد نہ کرنے کی روایت
پاکستان میں کئی ملزمان کو اب تک اس متنازعہ قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے لیکن آج تک کسی بھی ملزم یا ملزمہ کو سنائی گئی ایسی کسی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ایسے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان اکثر برسوں تک جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور سماجی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ کسی بھی مرد یا خاتون شہری کے خلاف کسی بھی فرد کی طرف سے ایسے الزمات کا لگایا جانا ہی اکثر مشتعل شہریوں کی طرف سے فوری پرتشدد احتجاج یا بلووں کی وجہ بن جاتا ہے۔
م م / ع ح (اے پی، روئٹرز)
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔