پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ نو برس سے توہین مذہب کے مقدمے میں قید ایک شخص کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں فیصلہ جمعے کو سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بینچ نے دیا۔
اشتہار
عدالتی ذرائع کے مطابق محمد منشا نامی اس شخص کو ذیلی عدالتوں کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔ 58 سالہ منشا کو سن 2008ء میں بہالپور کی مسجد کے ایک امام کی جانب سے قرآن کی بے حرمتی کے الزامات عائد کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ نے جمعے کے روز منشا کے خلاف موجود شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے، اسے رہا کرنے کا حکم دیا۔
سن 2009ء میں پاکستانی صوبہ پنجاب کی ایک عدالت نے 2009ء میں اسے جرم ثابت ہونے پر عمر قید سنائی تھی، جب کہ سن 2014ء میں اس کی سزا کی توثیق ہائی کورٹ نے بھی کر دی تھی اور اسی سال یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں پہنچا تھا۔
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mirza
10 تصاویر1 | 10
منشا کے وکیل دفاع، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ ان کے موکل کو گرفتار اس شخص کے الزام پر کیا گیا تھا، جو سننے اور بولنے کی حسیات میں خرابی کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے کسی شخص کی جانب سے بہ طور گواہ پیش ہونے کی قانونی طور پر کوئی اہمیت نہیں ہے اور ایسے شخص کی گواہی قانونِ شہادت کے تحت تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
منشا کے وکیل نے بتایا کہ وہ اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ خود ان کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں توہین مذہب اور توہین رسالت انتہائی حساس معاملات ہیں اور پاکستانی قانون میں اسے جرم قرار دیتے ہوئے، اس پر سزائے موت تک دی جا سکتی ہے۔
منشا کے وکیل نے بتایا کہ اس کے موکل کو یہ الزامات عائد کیے جانے کے بعد گاؤں کی ایک کونسل کے سامنے پیش کیا گیا تھا، جہاں اسے بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر اسے پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
برلن میں سعودی سفارت خانے کے سامنے بدوی کے حق میں مظاہرہ
02:21
پولیس نے منشا کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت مقدمہ قائم کیا، جب کہ اس مقدمے میں اہم ترین گواہ اختر محمد بنا، جو سننے اور بولنے میں مشکلات کا حامل شخص تھا۔
وکیل استغاثہ عبدالحمید نے بھی بتایا ہے کہ اس مقدمے میں منشا کے خلاف کوئی مناسب شواہد موجود نہیں تھے، جب کہ پولیس کی تفتیش بھی بے پناہ خامیوں کا شکار تھی، یہی وجہ ہے کہ عدالت نے محمد منشا کو بری کر دیا۔ یہ بات اہم ہے کہ منشا ایک انتہائی غریب شخص ہے اور اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنے دفاع کے لیے وکیل بھی کرتا۔ اس کے دفاع کے لیے وکیل بھی سپریم کورٹ نے مقرر کیا تھا۔