توہین مذہب کے پاکستانی قانون کے خلاف اٹلی میں احتجاجی مظاہرہ
مقبول ملک روئٹرز
25 فروری 2018
اطالوی دارالحکومت میں پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے خلاف سینکڑوں مسیحیوں نے ایک بڑے احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا، جس میں پاکستان میں اسی قانون کے تحت زیر حراست مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
اشتہار
اٹلی کے دارالحکومت روم سے اتوار پچیس فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اس شہر میں یہ احتجاجی مظاہرہ ہفتہ چوبیس فروری کو رات دیر گئے تک کیا گیا، جس میں سینکڑوں کی تعداد میں مقامی اور غیر ملکی مسیحی باشندوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر روم شہر کا ’کولوسیئم‘ نامی تاریخی ایمفی تھیٹر علامتی طور پر قریب پانچ گھنٹوں کے لیے سرخ روشنی میں ڈوبا رہا اور مسلسل بارش کے باوجود مظاہرین کئی گھنٹوں تک ’کولوسیئم‘ کے سامنے موجود رہے۔ اس جگہ کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ ایک عقیدے کے طور پر مسیحیت کے ابتدائی دور میں روم شہر میں یہی ایمفی تھیٹر مسیحی باشندوں کی ان کے مذہب کی وجہ سے ہلاکتوں کی علامت بن گیا تھا۔
بنیادی طور پر اس احتجاجی مظاہرے کا اہتمام دنیا بھر میں ظلم و ستم اور تعاقب کے شکار ان مسیحیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے کیا گیا تھا، جن کی تعداد کیتھولک کلیسا کی اعلیٰ شخصیات کے مطابق قریب 200 ملین بنتی ہے۔
روئٹرز کے مطابق عملی طور پر یہ اجتماع پاکستان میں توہین مذہب کے اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی شکل اختیار کر گیا، جس پر کئی پاکستانی اور غیر ملکی حلقوں کی طرف سے اسے متنازعہ قرار دے کر تنقید بھی کی جاتی ہے۔
اس مظاہرے کی خاص بات اس میں پاکستان سے آسیہ بی بی کے شوہر اور بیٹی کی شرکت تھی، جنہوں نے شرکاء سے خطاب بھی کیا۔ آسیہ بی بی ایک ایسی پاکستانی مسیحی خاتون ہیں، جنہیں توہین مذہب کے خلاف ملکی قانون کے تحت 2010ء میں ایک عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔
گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں بند اس پاکستانی شہری کے خلاف توہین اسلام کا الزام ان کے چند ہمسایوں نے لگایا تھا۔ آسیہ بی بی ان متعدد اقلیتی شہریوں میں سے ایک ہیں، جنہیں پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت تو سنائی جا چکی ہے لیکن جن کی سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور کئی دیگر اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے اس قانون کو شدت پسند حلقوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ اس قانون کے تحت اکثر کسی کے ساتھ بھی اپنی ذاتی دشمنی یا اختلافات کا بدلہ لینے کے لیے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ ایسے متاثرین میں صرف پاکستانی غیر مسلم اقلیتوں کے ارکان ہی نہیں ہوتے بلکہ کئی واقعات میں اس قانون کا غلط استعمال مقامی مسلم اکثریت سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے خلاف بھی دیکھا گیا ہے۔
اس احتجاجی مظاہرے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اطالوی بشپس کانفرنس کے سیکرٹری جنرل آرچ بشپ نُنزیو گالانتینو نے کہا، ’’توہین مذہب سے متعلق قوانین کا مقصد ان لوگوں کو نشانہ بنانا ہے، جو مختلف عقائد رکھتے ہیں۔‘‘ آرچ بشپ گالانتینو کا کہنا تھا، ’’اس قانون میں توہین مذہب کی تعریف بھی نہیں کی گئی اور لوگ عدالتوں میں شواہد پیش کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ اس کے علاوہ توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگانے پر کوئی سزائیں بھی نہیں سنائی جاتیں۔‘‘
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mirza
10 تصاویر1 | 10
آسیہ بی بی کے خلاف مقدمے اور انہیں سنائی جانے والی سزا کو اس لیے بھی بہت زیادہ بین الاقوامی توجہ مل چکی ہے کہ اب تک اس پاکستانی خاتون کے حق میں بولنے والے دو سیاستدانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے ایک صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر تھے اور دوسرے ایک مسیحی وزیر شہباز بھٹی۔
روم میں ’کولوسیئم‘ کے سامنے اس اجتماع سے آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح اور ان کی بیٹی نے بھی خطاب کیا۔ عاشق مسیح نے کہا کہ ان کی اہلیہ توہین مذہب کی کسی بھی طرح مرتکب نہیں ہوئی تھیں اور ان کے خلاف الزامات ’محض اس وجہ سے نفرت کا نتیجہ تھے کہ مسیحیوں کو ناپاک سمجھا جاتا ہے‘۔
اس مرتبہ پاکستان میں کرسمس کی ہائی لائیٹس
اس سال پاکستان میں کرسمس کی خصوصی تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ سماجی ماہرین کی رائے میں پاکستان، جسے اقلیتوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک روا رکھنے کے الزام کا سامنا رہتا ہے، وہاں ان خصوصی پروگراموں کا انعقاد خوشگوار علامت ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
کراچی میں کرسمس کی تیاریاں
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کرسمس کے موقع پر کئی گرجا گھروں کو سجایا گیا۔ کرسمس سے قبل شاہراہ فیصل پر ایک اونٹوں کی ریلی نکالی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
کرسمس کی خوشیوں میں سب شامل
اس ریلی میں لال ٹوپیاں پہنے بچوں اور بڑوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مسلم پاکستانیوں نے بھی اس ریلی میں بھر پور حصہ لیا۔ کئی دکانوں میں کرسمس کے درخت سجائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
کرسمس ٹرین، مسیحیوں کے لیے تحفہ
پاکستان میں مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے کرسمس کے موقع پر اسلام آباد سے ایک ٹرین کا آغاز کیا گیا ۔ اس ٹرین کے چلانے کا مقصد مسلم اکثریتی آبادی میں مذہبی عدم رواداری دور کرنے اور باہمی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
اہم مسیحی شخصیات
اس ٹرین پر پاکستان کی کامیاب اور اہم مسیحی شخصیات کی تصاویر بنائی گئی ہیں تاکہ پاکستان کے لیے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔ پاکستانی حکومت کی رائے میں اُس کی کوشش ہے کہ مسلمان اکثریتی ملک میں اقلیتوں کے حوالے سے عوامی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Reza
بھارتی ماہی گیر رہا
کرسمس کے موقع پر پاکستانی حکومت نے خیر سگالی کے طور پر 220 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کر دیا ہے۔ یہ بھارتی باشندے ایک برس سے زائد عرصے سے پاکستان میں قید تھے۔
تصویر: Reuters/A.Soomro
مذہنی اقلیتوں پر تشدد
پاکستان میں مذہنی اقلیتوں پر تشدد اور ان کے خلاف تعصب ایک عام رویہ بن چُکا ہے۔ رواں برس لاہور میں ایسٹر کے موقع پر ایک تفریحی پارک میں کیے گئے ایک حملے میں 73 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے مسیحیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
6 تصاویر1 | 6
اسی طرح آسیہ بی بی کی بیٹی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا، جس دوران وہ جذبات سے مغلوب ہو کر رونے بھی لگی تھیں۔ اس اجتماع میں شرکت سے قبل کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے عاشق مسیح اور ان کی بیٹی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں پاپائے روم نے آسیہ بی بی کی بیٹی سے کہا تھا، ’’میں اکثر تمہاری والدہ کے بارے میں سوچتا ہوں اور ان کے لیے دعا کرتا ہوں۔‘‘
اس مظاہرے کے شرکاء سے نائجیریا کی ایک مسیحی خاتون ریبیکا بطرس نے بھی خطاب کیا، جنہیں بوکو حرام کے مسلمان عسکریت پسندوں نے اغوا کر کے قریب دو سال تک اپنے قبضے میں رکھا تھا۔ انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ انہیں بوکو حرام کی حراست میں بار بار پیٹا اور ریپ کیا گیا تھا۔
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔