1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تين اکتوبرسن 1990: اتحاد کی خوشياں

6 مئی 2013

تين اکتوبر سن 1990جرمن اتحاد کا تاريخی دن تھا اور اسی نسبت سے خوشياں بھی منائی جارہی تھيں۔ تاہم اس رات بہت سے ذمے دار افراد کی آنکھوں سے نيند کوسوں دورتھی۔ ان کی آنکھوں کے سامنے گذشتہ ہفتوں اور مہينوں کے مناظرتھے۔

تصویر: dapd

تين اکتوبر سن 1990ء کی رات برلن ميں پارلیمان کی عمارت کے سامنے روشنيوں کا ايک سيلاب امڈ آيا تھا۔ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی خوشياں منانے والوں ميں سے اکثر کی آنکھوں ميں آنسو تھے۔ وہ ايک ایسے تاريخی واقعے کے شاہد تھے، جسے نہ تو جرمن عوام اور نہ ہی دوسرے يورپی ملکوں کے شہری ممکن سمجھتے تھے۔

مشرقی جرمنی کے شہريوں نے ايک پُر امن انقلاب کےذريعے ملک کے سوشلسٹ رياستی نظام کا تختہ الٹ ديا تھا اور حکمرانوں کو ان کے عہدوں سے محروم کر ديا تھا۔اس پُر امن انقلاب کے دوران ايک بھی گولی نہيں چلائی گئی تھی اور کسی قسم کی طاقت استعمال نہيں کی گئی تھی۔ تين اکتوبر سن 1990ءکے روز مشرقی جرمنی وفاقی جمہوريہ جرمنی يا مغربی جرمنی ميں شامل ہوگيا تھا اور تمام جرمن شہری ايک بار پھر ايک ہی رياست ميں رہ رہے تھے۔

جرمن صدر رشارڈ فان وائتسيکر نے آتشبازی کا جشن شروع ہونے سے پہلے کہا:’’ہم جرمنوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اور ہم ايک متحدہ يورپ ميں عالمی امن کے لئے کام کرنا چاہتے ہيں۔‘‘

اُس رات خصوصاً جرمن اتحاد سے بہت قريبی ربط رکھنے والے ذمہ دار لوگوں کی آنکھوں سے نيند بہت دور تھی۔ چانسلر آفس کے اُس وقت کے سربراہ رُوڈولف زائٹرز کے لئے پچھلے کئی ہفتے بہت ہنگامہ خيز رہے تھے۔ وہ گزشتہ 12 مہينوں کے دوران بہت سے اہم مواقع پر چانسلر کوہل کے ہمراہ تھے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُس شب يہ تمام مناظر اُن کی نگاہوں کے سامنے گردش کر رہے تھے اور نيند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

تين اکتوبر سن 1990 کو چانسلر کوہل،اُن کی اہليہ، وزير خارجہ گينشر اور سابق مشرقی جرمن وزير اعظم دو مزييرتصویر: AP

323 ہنگامہ خيز دن

ديوار برلن کے گرنے کے بعد سے تين اکتوبر سن 1990ء تک 323 دن گذر چکے تھے۔ مغربی اور مشرقی جرمنی، دونوں رياستوں کے سياستدانوں کے لئے يہ دن پيچيدہ مذاکرات اور دور رس فيصلوں کے دن تھے۔ خصوصاً مشرقی جرمنی ميں تو حالات يکسر بدل چکے تھے۔

مارچ سن 1990ء کو منتخب ہونے والے مشرقی جرمن پيپلز پارليمنٹ کے اراکين نے رياست کو ايک وفاقی ڈھانچے کی شکل دے دی تھی، جس کے نئے تشکيل پانے والے وفاقی صوبے، مغربی جرمنی کے وفاقی صوبوں کے ساتھ مل کراب ايک متحد رياست بنا سکتے تھے۔ اس کے علاوہ مشرقی جرمنی کی رياستی نگرانی کی مشينری ختم کر دی گئی تھی اور مغربی جرمن کرنسی مارک مشرقی جرمنی ميں بھی رائج کر دي گئی تھی۔

مشرقی يورپ ميں اصلاحات کی تحريک برپا ہونے کے بعد سے يورپ ميں زبردست ہلچل تھی اور ہر جگہ لوگ سفری آزاديوں اور سياسی نظام ميں تبديلی کے مطالبے کر رہے تھے۔سوويت يونين سے اٹھنے والی ’’شفافيت اور تشکيل نو‘‘ کی آواز تيزی سے پھيلی تھی اور اُس نے مشرقی يورپ کی تمام رياستوں ميں احتجاجی تحريکوں کو جنم ديا تھا۔ روُڈولف زائٹرز بتاتے ہیں:’’يہ ايک ايسے عمل کی بہت پُر احتياط نگرانی کا معاملہ تھا، جس نے نہ صرف ماسکو بلکہ مغربی يورپی ممالک ميں بھی خوف اور انديشے پيدا کر ديے تھے۔‘‘

جرمن اتحاد کی جانب کھلنے والا دريچہ

کئی يورپی دارالحکومتوں ميں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو شک و شبے کی نگاہ سے ديکھا جا رہا تھا۔ يورپ کے وسط ميں دوبارہ ايک طاقتور جرمن رياست سے خوف پايا جاتا تھا۔ برطانوی وزير اعظم مارگريٹ تھيچر نے کھلم کھلا جرمن اتحاد کی مخالفت کی جبکہ فرانسيسی صدر فرانسوا متراں بھی متحد جرمنی کے حامی نہيں تھے۔ سوويت يونين ميں بھی يورپ کی صورتحال کے خلاف مزاحمت پائی جاتی تھی کيونکہ ايک وقت کی يہ عالمی سپر طاقت ان ممالک ميں اپنے اثر و رسوخ سے مسلسل زيادہ محروم ہوتی جا رہی تھی، جو وارسا پيکٹ ميں شامل تھے اور یوں نيٹو اور مغربی سرمايہ دارانہ نظام کے مد مقابل تھے۔ مغرب ميں يہ خدشہ تھا کہ کہيں صدر ميخائيل گورباچوف کی حکومت کا تختہ نہ الٹ ديا جائے اور اس طرح جرمنی کے دوبارہ اتحاد کی سوويت منظوری خطرے ميں نہ پڑ جائے۔

صدر رچرڈ فان وائسيکر، بالکل دائيں جانب۔تين اکتوبر سن 1990تصویر: picture alliance/dpa

جرمن اتحاد، عالمی سياسی منظرنامے کے مرکز ميں

جرمنوں کی خوش قسمتی تھی کہ اُس زمانے ميں کوئی ايسا اہم يا شورش انگيز عالمی واقعہ پيش نہيں آيا، جس سے دنيا کی توجہ جرمن اتحاد کی طرف سے ہٹ جاتی۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد البتہ ايسا ہو سکتا تھا کيونکہ عالمی سياست کی توجہ عراق کی طرف ہوگئی تھی، جس نے اگست سن 1990ء کے شروع ميں کويت پر قبضہ کر ليا تھا۔

سن 1991ءکے وسط ميں دنيا ايک بار پھر چوکنا ہوگئی کيونکہ سوويت فوج کے چند جرنیلوں اور فوج کے ايک حصے نے گوربا چوف کے خلاف بغاوت ميں حصہ ليا تھا۔ اگر يہ واقعات ايک سال قبل پيش آئے ہوتے، تو جرمن اتحاد کا عمل پيچيدہ تر اور زيادہ طويل ہو جاتا۔

پورے جرمنی کی اجتماعی پارليمان

وفاقی جمہوریہ جرمنی اور مشرقی جرمنی کے پارليمانی اراکين نے متحدہ جرمنی کی پارليمان کے اجلاس ميں شرکت کی۔ اس کے دو ماہ بعد ہی سن 1932ءکے بعد ایک بار پھر پورے جرمنی ميں پارليمانی انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات ميں چانسلر کوہل کی کرسچین- لبرل مخلوط حکومت نے واضح طور پر کاميابی حاصل کی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں