تُرک فوجی شام میں داخل
24 اگست 2016آج بدھ 24 اگست کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے شروع ہونے والے اس آپریشن کا مقصد شدت پسند ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو ترک سرحد کے قریب شام کے ایک اہم گاؤں جرابلس سے نکال باہر کرنا ہے۔ ترک حکام کے مطابق ترک فورسز توپ خانے کی مدد سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں پر گولہ باری کر رہی ہیں جبکہ ترک جنگی طیاروں نے بھی جرابلس پر بمباری کی ہے۔ ترکی ان حملوں کے ذریعے سرحدی سلامتی کے ساتھ ساتھ شام کی علاقائی سالمیت کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترکی اور شام کی مشترکہ سرحد پر تناؤ دو روز قبل اُس وقت بڑھ گیا تھا، جب جرابلس کے علاقے سے راکٹ فائر کیے گئے جو ترک علاقے میں جا گرے تھے۔ ترک فوج کی طرف سے بھی اس کا جواب دیا گیا تھا۔ اس آپریشن کو ایک احتیاطی تدبیر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے جس کا مقصد کُرد ملیشیا کو جرابلس پر حملوں سے باز رکھنا ہے۔ کرُد ملیشیا داعش کے تو خلاف ہے مگر ترکی کی طرف سے اس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ترکی کے شمالی حصے میں کُرد کنٹرول والا علاقہ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شامی سرحد کے اندر ترکی کے اس فوجی آپریشن کا مقصد نہ صرف شدت پسند گروپ داعش کو نشانہ بنانا ہے بلکہ یہ کرد ملیشیا کے بھی خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن سرحد پر موجود مسائل کا خاتمہ کر دے گا۔ آج بدھ 24 اگست کو انقرہ میں ایک خطاب کے دوران ایردوآن کا کہنا تھا، ’’صبح چار بجے ہماری فورسز نے داعش اور PYD (کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی) دہشت گرد گروپوں کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا ہے۔ شام کے شمالی حصے میں موجود یہ گروپ ہمارے ملک کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘
ترک وزیر داخلہ اِفکان اعلیٰ Efkan Ala نے ریاستی نیوز ایجنسی انادولو کو بتایا، ’’اللہ نے چاہا تو ہم بہت کم وقت میں نتیجہ حاصل کر لیں گے۔‘‘ اعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ترکی اپنے اتحادی پارٹنرز اور شام کی اعتدال پسند اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ترک حکام کی طرف سے منگل کے روز کرکامِس نامی علاقے کو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر خالی کرنے کا حکم جاری کیا گیا تھا، جس سے توقع کی جا رہی تھی کہ ترکی کی طرف سے اس طرح کا آپریشن جلد کیا جائے گا۔