تھائی بادشاہ کو خاندانی دولت کے مکمل ملکیتی حقوق مل گئے
17 جون 2018
تھائی لینڈ کے بادشاہ کو ملکی شاہی خاندان کی قریب تیس ارب ڈالر کے برابر دولت کے مکمل ملکیتی حقوق مل گئے ہیں۔ یوں مشرق بعید کی اس بادشاہت کے سربراہ ماہا وجیرا لونگ کورن کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہونے لگے گا۔
تھائی لینڈ کے بادشاہ ماہا وجیرا لونگ کورنتصویر: Reuters/A. Perawongmetha
اشتہار
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے اتوار سترہ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں گزشتہ 80 برسوں سے شاہی خاندان کی املاک کا انتظام ایک ایسے سرکاری ادارے کے پاس ہے، جو صرف یہی کام کرتا ہے۔
اب اس ادارے نے ملکی شاہی خاندان کی املاک کے مکمل ملکیتی حقوق بادشاہ ماہا وجیرا لونگ کورن کے حوالے کر دیے ہیں کیونکہ شاہ ماہا نہ صرف سربراہ مملکت ہیں بلکہ وہ بادشاہ کے طور پر شاہی خاندان کے سربراہ بھی ہیں اور صرف انہی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ شاہی خاندان کی دولت کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کر سکیں۔
شاہ ماہا اپنے والد شاہ بھومی بول کے انتقال کے بعد 2016ء میں تھائی لینڈ کے بادشاہ بنے تھے اور اب وہ تمام شاہی اثاثے ان کی ذاتی ملکیت میں آ گئے ہیں، جن کی مجموعی مالیت کا اندازہ 30 ارب سے لے کر 60 ارب ڈالر تک یا 25 ارب یورو سے لے کر 51 ارب یورو تک لگایا جاتا ہے۔
تھائی شاہی خاندان کی املاک کا انتظام کراؤن پراپرٹی بیورو نامی اس ادارے کے پاس ہے، جو تقریباﹰ ایک سرکاری محکمے کی طرح ہے، اور جو تین ایسے قوانین کے تحت شاہی اثاثوں کا منتظم ادارہ ہے، جو 1936ء میں نافذ ہوئے تھے۔
تھائی شاہی خاندان کی املاک کی مالیت کا اندازہ تیس ارب ڈالر سے لے کر ساٹھ ارب ڈالر تک لگایا جاتا ہےتصویر: DW/N. Martin
یہ صورت حال گزشتہ برس اس وقت کچھ تبدیل ہو گئی تھی جب ملک میں فوجی حکومت نے ایک ایسا نیا قانون منظور کیا تھا، جس کے تحت کراؤن پراپرٹی بیورو کا کنٹرول اور شاہی اثاثوں کی ملکیت دونوں ہی ریاست سے دوبارہ بادشاہ کو منتقل کر دیے گئے تھے۔
اتوار سترہ جون کو کراؤن پراپرٹی بیورو یا سی پی بی کی طرف سے انتہائی شاذ و نادر جاری کیے جانے والے ایک وضاحتی نوٹ میں کہا گیا، ’’تاجِ تھائی لینڈ کی ملکیت، تمام اثاثے اور ان کا انتظام عزت مآب بادشاہ ماہا کو منتقل کر دیے گئے ہیں، جو اب ان سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اپنی صوابدید کے مطابق کر سکیں گے۔‘‘
اس وضاحت کے مطابق اب ان شاہی اثاثوں کی ملکیت کی قانونی حیثیت ایسی ہی ہو گی، جیسے بادشاہ ماہا کی ملکیت ان کی نجی اثاثوں کی۔ بادشاہ ماہا جب سے تخت نشین ہوئے ہیں، انہوں نے شاہی محل کے معاملات پر اپنی گرفت بھی مضبوط بنائی ہے اور کئی ریاستی امور میں بھی انہوں نے اپنے والد کے مقابلے میں اپنی طاقت اور اختیارات کا زیادہ استعمال کیا ہے۔
اسے کہتے ہیں بڑا کھیل، ہاتھیوں کی پولو
تھائی کے بادشاہ وجیرا لونگ کورن کی سرپرستی میں روایتی ہاتھی پولو ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوا۔ اس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر دس ٹیمیں شریک تھیں۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
گھوڑوں کی طرح لیکن سست پولو
ہاتھیوں کی پولو بھی بالکل گھوڑوں کی پولو کی طرح کھیلی جاتی ہے۔ سفید بال کو حریف ٹیم کے گول تک لانا ہوتا ہے۔ گھوڑوں کی پولو کے برعکس اس میں میدان چھوٹا، ہاکیاں لمبی اور کھیل کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
20 ہاتھی، 40 کھلاڑی
ٹورنامنٹ میں بیس ہاتھی حصہ لیتے ہیں اور یہ سبھی مادہ ہاتھی ہوتے ہیں۔ ان کی تربیت خاص طور پر اس کھیل کے لیے کی جاتی ہے۔ سیاحتی مقامات پر بھی یہی ہاتھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ ہر ہاتھی کے اوپر دو کھلاڑی سوار ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/R. Sageamsa
ہاکی کے لیے ایک یا دو ہاتھ؟
یہ پولو خواتین اور مرد دونوں ہی کھیل سکتے ہیں۔ خواتین کو دو سے تین میٹر لمبی ہاکی اور دونوں ہاتھ استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے برعکس مرد کھلاڑی صرف ایک ہاتھ استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک میچ سات سات منٹ کے دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
اس کھیل کا خیال کِسے آیا؟
اس کھیل کا خیال 1981ء میں سوئٹزر لینڈ کے شوٹے جیمز اور بریٹے جِم ایڈروڈ کو اس وقت آیا، جب وہ سوئٹزرلینڈ کے شہر زانکٹ مورٹیس میں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایڈروڈ کا نیپال میں ایک ہوٹل ہے اور جیمز پولو کے کھلاڑی ہیں۔ اس کے ایک سال بعد ’ورلڈ ایلیفینٹ پولو ایسوسی ایشن‘ کی بنیاد رکھی گئی۔
تصویر: Reuters/Soe Zeya Tun
متنازعہ کھیل
جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں اس کھیل کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ ان کے مطابق ہاتھی اس کھیل کے لیے غیرموزوں ہیں۔ رواں برس بھی اس بات پر احتجاج کیا گیا تھا کہ ہاتھیوں کو لاٹھیوں سے مارا گیا ہے۔ ہاتھیوں پر تشدد کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر لائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Lalit
کھیل کے بعد بھوک
ہرمیچ کے آغاز اور اختتام پر ہاتھیوں کو ان کا پسندیدہ کھانا کھلایا جاتا ہے۔ ہاتھی انناس، پپیتہ، کیلا، گنے اور نمک کے ساتھ چاول شوق سے کھاتے ہیں۔ تھائی لینڈ میں تقریبا چار ہزار جنگلی ہاتھی موجود ہیں جبکہ پالتو ہاتھیوں کی تعداد تقریبا چار ہزار سات سو ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/R. Sageamsa
ہاتھیوں کو لاحق خطرات
جنگلی ہاتھیوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی ہوتی جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لکڑی کے حصول کے لیے درخت کاٹے جا رہے ہیں اور ان کا قدرتی ماحول سکڑتا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Lalit
7 تصاویر1 | 7
بادشاہ بھی ٹیکس دہندہ
تھائی لینڈ میں شاہ ماہا کو بیسیوں ارب ڈالر مالیت کے ان اثاثوں کی منتقلی کا ایک بہت دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ملکی بادشاہ کی املاک اور آمدنی پر بھی آئندہ ٹیکسوں اور سرکاری محصولات کا اطلاق ہو سکے گا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اپنی املاک اور اثاثوں پر سارے ٹیکس اور محصولات ادا کرنے کی درخواست بھی خود بادشاہ ماہا وجیرا لونگ کون نے ہی کی تھی۔
تھائی اقتصادی جریدے ’بزنس انسائیڈر‘ کی جاری کردہ ایک فہرست کے مطابق شاہی املاک کی اپنے نام منتقلی کے اس اقدام کے بعد اس وقت 65 سالہ بادشاہ ماہا دنیا کے امیر ترین بادشاہ بن گئے ہیں۔ امریکی جریدے ’فوربس میگزین‘ نے 2012ء میں تھائی بادشاہ کی ملکیت اثاثوں، غیر منقولہ املاک اور سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت کا تخمینہ 30 ارب امریکی ڈالر کے برابر لگایا تھا۔
م م / ص ح / اے پی
مگر مچھوں کی دنیا میں خوش آمدید
تھائی لینڈ میں دنیا کے سب سے بڑے مگرمچھوں کے فارم ہیں۔ ان فارموں میں سیاح مگرمچھوں کو دھوپ سینکتے، مرغیوں کو چبا چبا کر کھاتے اور گہرے سبز رنگ کے پانی سے بھرے تالاب میں مستی کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
بارہ لاکھ مگرمچھوں کے فارم
تھائی لینڈ میں مگرمچھوں کے ایک ہزار سے زائد فارم ہیں جن میں قریب بارہ لاکھ مگرمچھ رہتے ہیں۔ بہت سے فارموں میں مذبح خانے بھی ہیں جہاں مگرمچھوں کی کھال حاصل کر کے اُن سے لگژری مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگرمچھوں کا سب سے بڑا گھر
شری آیوتھایا نامی فارم تھائی لینڈ میں مگر مچھوں کی افزائش کے لیے بنائے گئے بڑے فارموں میں سے ایک ہے۔ یہ 35 سال سے کام کر رہا ہے اور اس میں تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ مگرمچھ رہتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگر مچھوں کی کھال سے مصنوعات
شری آیوتھایا کروکوڈائل فارم خطرے سے دوچار حیاتیات کے کاروبار سے منسلک بین الاقوامی معاہدے کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ اس فارم کو یہاں موجود مگرمچھوں سے تیار کردہ مصنوعات بر آمد کرنے کی قانونی اجازت حاصل ہے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
قدیم حیاتیات
مگر مچھ زمین پر موجود قدیم ترین جانوروں میں سے ایک ہیں۔ تاہم اب ان کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ دوسری جانب مگر مچھوں کی افزائش نسل کے لیے کئی ممالک میں ان کی فارم بنائے گئے ہیں۔ تھائی لینڈ کے علاوہ میکسیکو میں بھی کروکوڈائل فارم موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
سب سے بڑا خریدار چین
چین مگر مچھوں کے چمڑے سے بنائی گئی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ آیوتھایا فارم کے مالک وچیان رائینگنیٹ کا کہنا ہے،’’ ہم مگرمچھوں کی افزائش نسل سے لے کر اُن کی کھال سے مصنوعات بنانے تک سب کچھ کرتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
چمڑے سے بنے مہنگے بیگ اور سوٹ
مگر مچھ کے چمڑے سے بنا برکن اسٹائل ایک ہینڈ بیگ تقریباﹰ ڈھائی ہزار ڈالر میں بِکتا ہے اور اگر آپ کو اس کا سوٹ خریدنا ہے تو پھر 6،000 ڈالر تک خرچ کرنا ہوں گے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگرمچھ کا گوشت بھی مہنگا
چمڑے کے علاوہ مگرمچھ کا گوشت بھی بیچا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ میں مگرمچھ کا ایک کلو گوشت تین سو بھات تک میں فروخت کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
برآمد میں کمی
تھائی لینڈ میں مگر مچھ کی مصنوعات کی صنعت کو بحران کا سامنا بھی ہے۔ تھائی لینڈ کی وزارت تجارت کے مطابق سن 2016 میں مگر مچھ کے چمڑے سے بنی مصنوعات کی برآمد میں ساٹھ فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Perawongmetha
مگرمچھ سے شرارت
تھائی لینڈ کے لوگ مگرمچھوں سے تفریح کا کام بھی لیتے ہیں۔ اب اس شخص ہی کو لیجیے جو مگر مچھ کے منہ میں اپنا سر ڈال رہا ہے۔ لیکن اس آدمی کو اور مگر مچھ کو بھی اس کی خاص ٹریننگ ملی ہے۔ اس لیے آپ ایسا کرنے کا خیال بھی کبھی دل میں نہیں لائیے گا۔