1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتتھائی لینڈ

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں تازہ سرحدی جھڑپیں اور فضائی حملے

جاوید اختر روئٹرز، اے پی کے ساتھ
8 دسمبر 2025

تھائی لینڈ نے اپنے متنازع سرحدی علاقے میں کمبوڈیا کے خلاف فضائی حملے شروع کر دیے ہیں۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیا ہے۔

ایک ٹینک سساکیت صوبے میں تھائی لینڈ-کمبوڈیا کی سرحد کی طرف سڑک پر آگے بڑھ رہا ہے
ملائیشیا کے وزیرِ اعظم نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا پر زور دیا کہ وہ تحمل سے کام لیں، انہوں نے خبردار کیا کہ یہ لڑائی اس محتاط سفارتی کوشش کو ضائع کر سکتی ہے جس سے جنگ بندی طے پائی تھیتصویر: Athit Perawongmetha/REUTERS

تھائی فوج نے کہا ہے کہ کمبوڈیا کے ساتھ تازہ لڑائی میں اس کا  کم از کم ایک اہلکار ہلاک اور چار  زخمی ہو گئے ہیں۔ پیر کے روز جاری کردہ تھائی فوج کے ایک بیان کے مطابق مشرقی صوبے اُوبون راتچاتھانی کے دو مقامات پر اس وقت جھڑپیں دوبارہ شروع ہوئیں، جب  کمبوڈین فورسز کی جانب سے  فائرنگ کا آغاز کیا گیا۔

بیان میں کہا گیا،''تھائی فوج نے اب کئی علاقوں میں عسکری اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے طیاروں کا استعمال شروع کر دیا ہے۔‘‘

کمبوڈیا کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے سرحد پار سے جاری اشتعال انگیزی کے بعد تھائی فوج نے پیر کی صبح سویرے دو مقامات پر ان کی فورسز پر حملے کیے، تاہم کمبوڈین فوج نے جوابی کارروائی نہیں کی۔

تھائی آرمی نے کہا کہ کمبوڈین فوج نے بی ایم-21 راکٹ تھائی شہری علاقوں کی طرف داغے، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

دریں اثنا ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا پر زور دیا کہ وہ تحمل سے کام لیں، انہوں نے خبردار کیا کہ یہ لڑائی اس محتاط سفارتی کوشش کو ضائع کر سکتی ہے جس سے جنگ بندی طے پائی تھی۔

انور نے، جو خطے کی تنظیم آسیان کے سربراہ بھی ہیں، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم دونوں فریق سے زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کرنے، رابطے کے کھلے ذرائع برقرار رکھنے اور موجودہ طریقہ کار سے مکمل فائدہ اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔‘‘

جولائی میں ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھاتصویر: Mohd Rasfan/Pool via REUTERS

جنگ بندی کا خاتمہ

دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ جولائی میں پانچ روزہ جنگ کی صورت اختیار کر گیا تھا، جس کے بعد ملائیشیا کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک نے اکتوبر میں کوالالمپور میں ایک توسیع شدہ امن معاہدے پر بھی دستخط کیے، جس کی تقریب میں ٹرمپ نے شرکت کی۔

جولائی کی جھڑپوں کے دوران کم از کم 48 افراد ہلاک اور تقریباً تین لاکھ لوگ عارضی طور پر بے گھر ہوئے، جب دونوں ہمسایہ ممالک نے ایک دوسرے پر راکٹ اور بھاری توپ خانے سے حملے کیے۔

گزشتہ ماہ ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں اپنے ایک فوجی کے شدید زخمی ہونے کے واقعے کے بعد تھائی لینڈ نے کہا کہ وہ کمبوڈیا کے ساتھ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد روک رہا ہے۔

کمبوڈیا کے بااثر سابق طویل المدتی رہنما ہُن سین، جو موجودہ وزیرِ اعظم ہُن مانیت کے والد ہیں، نے کہا کہ تھائی فوج ''جارح‘‘ کا کردار ادا کر رہی ہے اور وہ کمبوڈین فورسز کو جوابی کارروائی پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کمبوڈین افواج کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کی۔

ہُن سین نے فیس بک پر کہا، ''جوابی کارروائی کی سرخ لکیر پہلے ہی کھینچی جا چکی ہے۔ میں تمام سطحوں کے کمانڈرز سے کہتا ہوں کہ وہ تمام افسران اور سپاہیوں کی اسی کے مطابق رہنمائی کریں‘‘۔ تاہم انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔

سن انیس سو باسٹھ میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے ایک ہزار سال قدیم مندر سمیت متنازع علاقے پر کمبوڈیا کا حق تسلیم کیا، جو آج بھی بہت سے تھائی شہریوں کو ناگوار گزرتا ہےتصویر: STR/AFP

ایک صدی سے زیادہ پرانا تنازع

تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کی دشمنی صدیوں پرانی ہے، جب دونوں خطے کی طاقتور سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہتی تھیں۔

ان کے موجودہ سرحدی دعوے بڑی حد تک 1907 کے اُس نقشے سے جڑے ہوئے ہیں، جو کمبوڈیا پر فرانسیسی قبضے کے دوران بنایا گیا تھا اور جسے تھائی لینڈ غلط قرار دیتا ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان 817 کلومیٹر طویل زمینی سرحد کا تنازع ہے۔

سن انیس سو باسٹھ میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے ایک ہزار سال قدیم مندر سمیت متنازع علاقے پر کمبوڈیا کا حق تسلیم کیا، جو آج بھی بہت سے تھائی شہریوں کو ناگوار گزرتا ہے۔

تھائی فوج نے بتایا کہ تھائی لینڈ میں سرحدی کشیدگی کے باعث چار سرحدی اضلاع میں 3,85,000 سے زائد شہریوں کو منتقل کیا جا رہا ہے، جن میں سے 35,000 سے زیادہ افراد کو عارضی کیمپوں میں رکھا جا چکا ہے۔

حالیہ جنگ بندی معاہدے میں متنازع سرحدی تنازع کے حل کے لیے کوئی واضح راستہ شامل نہیں کیا گیا۔

ادارت: شکور رحیم

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں