1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی لینڈ: عبوری حکومت اگست میں، فوجی سربراہ

افسر اعوان13 جون 2014

تھائی لینڈ میں گزشتہ ماہ سیاسی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے والی ملکی فوج کے سربراہ نے کہا ہے رواں ماہ اگست تک ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کر دی جائے گی۔

تصویر: Reuters

یہ پہلا موقع ہے کہ فوج کی جانب سے سیاسی حکومت کے قیام کے لیے ایک واضح وقت کا تعین کیا گیا ہے۔

تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا نے ملک کے سینئر فوجی حکام سے خطاب میں عنان حکومت ایک منتخب سیاسی قیادت کے حوالے کرنے کے لیے تین مراحل پر مبنی ایک منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ مراحل مفاہمت یا مصالحت، حکومت کا قیام اور پھر انتخابات کے انعقاد پر مبنی ہیں۔

سال 2015ء کے بجٹ کے معاملے پر ہونے والی اس خصوصی میٹنگ میں جنرل چان اوچا کا کہنا تھا، ’’ایک حکومت اگست تک بنا دی جائے گی، یا پھر ابتدائی ستمبر تک۔‘‘

سابق وزیراعظم یِنگ لَک شناواترا کے حامیوں اور مخالفین کی جانب سے تھائی لینڈ میں چھ ماہ تک جاری رہنے والے مظاہروں کے بعد فوج نے 22 مئی کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

پرایُت چان اوچا نے اپنے خطاب کے دوران ایک بار پھر دہرایا کہ ایک عبوری آئین تین ماہ کے اندر اندر تیار کیا جائے گا اور ملک میں عام انتخابات میں کم از کم ایک سال کا وقت لگے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگلے تین ماہ کے دوران ہمیں سب کچھ مناسب طریقے سے کر لینا چاہیے، بھلے وہ آئین ہو یا دیگر معاملات۔ پہلے مرحلے سے متعلق سب کچھ اگست تک مکمل ہو جانا چاہیے۔‘‘

ملکی عدالت نے سابق وزیراعظم یِنگ لَک شناواترا کو حکومت سے الگ کر دیا تھاتصویر: Reuters

اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ملکی فوج نے قریب 300 سیاستدانوں، فعالیت پسندوں اور صحافیوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جلاوطن سابق وزیراعظم تھاکسن شناواترا سے تعلق رکھتے ہیں۔ تھاکسن شناواترا پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ بیرون ملک بیٹھ کر اپنی بہن اور ملک کی سابق وزیراعظم یِنگ لَک شناواترا کے ذریعے حکومت چلا رہے تھے۔

تھائی فوج کے سربراہ جنرل پرایُت چان اوچا کے مطابق انہوں نے ملک میں امن و امان کی بحالی کے لیے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت میں استحکام اور کسانوں کی فلاح ان کے اولین مقاصد ہیں۔

فوج کی طرف سے لاکھوں کسانوں کو سابق حکومت کی طرف سے خریدے گئے مہنگے چاولوں کی قیمت کی ادائیگی شروع کر دی گئی ہے۔ شناواترا کی یہ پالیسی دراصل انہیں 2011ء میں اقتدار میں لے آئی تھی۔

پایُت چن اوچا نے آج جمعہ 13جون کو منعقد ہونے والی میٹنگ کو بتایا کہ فوج کا یہ اسکیم جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’آج اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو یقیناﹰ چاول کی قبل از وقت خرید کی کوئی اسکیم نہیں ہے، تاہم ہم کیا مستقبل میں اسے شروع کریں گے یا نہیں تو یہ ایک مختلف مسئلہ ہے۔‘‘

شناواترا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے حکومت کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے۔ اس اسکیم کے تحت چاول فروخت کرنے والے کسانوں کے ڈھائی بلین امریکی ڈالرز سے زائد حکومت کے ذمے واجب الادا ہیں۔ اسی معاملے پر ملکی عدالت نے سابق وزیراعظم یِنگ لَک شناواترا کو حکومت سے الگ کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں