1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھائی لینڈ:  لڑکوں کو غار سے نکالنے کی کارروائی شروع

8 جولائی 2018

تھائی لینڈ میں ایک غار میں پھنسے فٹ بال ٹیم کے بارہ نوجوان کھلاڑیوں اور ان کے کوچ کو باہر نکالنے کے لیے بالاآخر کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ مزید بارشوں کی پیشن گوئی کی وجہ سے امدادی ٹیم کے پاس محدود وقت ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/Royal Thai Navy

اس امدادی کارروائی کے نگران نارونگ سک اوسوتاناکورن نے صحافیوں کو بتایا، ’’ آج ’ڈی ڈے‘ ہے۔ تمام نوجوان باہر نکلنے کے لیے تمام مشکلات برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اس موقع پر اس غار کے پاس ذرائع ابلاغ کے تمام کیمپوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

اس جگہ پہلے ہی ایک ہزار سے زائد صحافی موجود تھے اور اب مزید کسی صحافی کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ دوسری جانب غار کے پاس غوطہ بازوں اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اوسوتاناکورن نے مزید بتایا، ’’جہاں تک پانی کی سطح، موسم اور لڑکوں کی صحت کا تعلق ہے، ریسکیو کارروائی شروع کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔‘‘ ان کے بقول ایک جانب تمام غوطہ اور دوسری طرف لڑکے بھی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر تیار ہیں، ’’ ان نوجوان فٹ بالرز کو ایک ایک کر کے باہر لایا جائے گا اور ہر لڑکے کے ساتھ دو غوطہ خور ہوں گے۔‘‘ ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ آپریشن جرمن وقت کے مطابق شام چار بجے تک  مکمل کر لیا جائے گا۔

تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lalit

 یہ بارہ نوجوان اور ان کا ٹرینر گزشتہ دو ہفتوں سے تھائی لینڈ کے شمال میں واقع ’تھام لوآنگ‘ نامی غار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ غار میں پانی بھر جانے کی وجہ سے ان لڑکوں تک پہنچنا ماہر غوطہ غوروں کے لیے بھی انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ تھائی نیوی کا ایک غوطہ خور ان لڑکوں تک آکسیجن پہنچانے کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہے۔

بتایا گیا ہے کہ آکسیجن کی کمی اور موسم کے خراب ہونے کی پیشن گوئیوں کی وجہ سے ریسکیو آپریشن کو فوری طور پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اوسوتاناکورن کے بقول، ’’جہاں پر یہ لوگ موجود ہیں وہاں ہوا میں آکسیجن کی مقدار اکیس فیصد سے کم ہو کر پندرہ فیصد ہو گئی ہے۔‘‘ اگر یہ مقدار بارہ فیصد ہو جائے تو انسان کے بے ہو ش ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں