تھائی لینڈ میں پھنسے ہوئے پاکستانی فنکاروں کی دہائی
12 اپریل 202022 مارچ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس کی وباء کی روک تھام کے لیے اپنی فضائی حدود میں تمام پروازوں کو بند کرنے کے احکامات جاری ہوئے۔ اس وجہ سے جہاں بہت سے دیگر پاکستانی جن میں طلباء اور سیاح بھی شامل ہیں، بیرونِ ملک پھنس گئے، وہیں تھائی لینڈ میں موجود کئی نامور فنکار بھی محصور ہو گئے ہیں، جو اپنی فلم کی شوٹنگ کے لیے وہاں موجود تھے۔
رواں سال فروری کے وسط میں پاکستانی فلم 'عشرت: میڈ اِن چائنہ‘ کی عکس بندی کے لیے چند پاکستانی فنکار اور تکنیکی عملہ تھائی لینڈ کے مغربی پہاڑی علاقے کنچنابوری پہنچا، یہ علاقہ دارالحکومت بنکاک سے قریباً چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ ان اداکاروں میں شمعون عباسی، صنم سعید، سارہ لورین اور محب مرزا کے علاوہ تکنیکی اسٹاف کے دیگر 17 اراکین بھی شامل ہیں۔
ان افراد نے اپنی فلم کی عکاسی تیزی سے کی اور تقریباً 99 فیصد کام مکمل کرلیا، تاہم اسی دوران کورونا وائرس کی وباء شدت اختیار کر گئی اور پاکستان نے اپنی فضائی حدود بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ یوں یہ 21 پاکستانی تھائی لینڈ میں موجود ہیں اور وہاں کرفیو کی وجہ سے صرف اپنے ہوٹل تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔
فلم کے مرکزی اداکاروں میں شامل شمعون عباسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ علاقے کے جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ صرف اُنہیں کی وجہ سے کُھلا ہوا ہے تاہم کرفیو کی وجہ سے صورتِ حال دگرگوں ہے اور ہوٹل کا اسٹاف بھی ان کی ہی وجہ سے رُکا ہوا ہے، ہوٹل انتظامیہ اگرچہ ان سے تعاون کررہی ہے مگر کب تک۔
اداکار اور ڈائریکٹر شمعون عباسی نے کہا کہ وہ محدود وسائل کے ساتھ فلم کی عکاسی کرنے کے لیے تھائی لینڈ آئے تھے جو اب تقریباً ختم ہونے کو ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ 21 افراد کے ساتھ وہاں ہیں جن کی خوراک اور رہنے کے بندو بست کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کی ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔
عباسی کا کہنا تھا کہ دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے اور وہ اس معاملے میں بے بس ہیں، پہلے یہ کہا گیا کہ پاکستان کی فضائی حدود ممکنہ طور پر چار اپریل کو کھولی جائے گی ، پھر وہ 11 اپریل ہوئی، پھر 13 اپریل اور اب 16 اپریل کا کہا گیا ہے اور وہ بھی کوئی حتمی نہیں ہے کیونکہ بکنگ ابھی تک نہیں کھولی گئی ہے۔
شمعون عباسی نے کہا کہ پاکستانی حکام کی جانب سے ان سے براہِ راست کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا گیا ہے، جو بالواسطہ رابطے ہوئے ہیں ان سے یہی کہا جاتا ہے کہ حوصلہ رکھیں کیونکہ ہزاروں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں لیکن اب تک ان کی رہنے یا کھانے پینے کے معاملات کے ضمن میں کوئی مدد نہیں کی گئی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے 'پاکستان فلم پروڈیوسرز ایسوسی ایشن‘ اور ایکٹرز سے بھی مدد کی درخواست کی ہے اور ان کی جانب سے مدد کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شمعون نے مزید کہا کہ ان لوگوں کا ایک جگہ اور دوسری جگہ جانا بھی آسان نہیں، ان کے پاس نہ صرف اپنا ذاتی سامان ہے بلکہ فلم کی عکس بندی کے لیے بہت سا تکنیکی سامان بھی ہے، جیسے کیمرے وغیرہ اور اتنے سارے سامان کے ساتھ وہ کہاں جائیں۔
شمعون نے حکومت سے درخواست کی وہ پاکستانیوں کو لانے کے لیے جو فلائٹ آپریشن کر رہے ہیں، اس کا کوئی ایسا روٹ بنا لیں کہ نہ صرف وہ اور ان کے ساتھی بلکہ تھائی لینڈ کے اس علاقے میں جو پاکستانی سیاح پھنسے ہوئے ہیں انہیں بھی پاکستان پہنچایا جاسکے۔
شمعون عباسی کے ساتھ ہی موجود اس فلم کی اداکارہ سارہ لورین کے مطابق انہوں نے پاکستانی حکام سے درخواست کی ہے وہ ان لوگوں کو پاکستان واپس لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے کیونکہ وہ لوگ وہاں سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
سارہ لورین کے مطابق وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فروری کے وسط میں تھائی لینڈ پہنچی تھیں اور اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم کی بہت مختصر سے عکس بندی باقی تھی جب تھائی لینڈ میں مکمل لاک ڈاؤن ہو گیا تھا۔
لورین نے مزید کہا کہ ہوٹل کی انتظامیہ کی جانب سے بھی ان سے کمرے خالی کرنے کا کہا جا رہا ہے اور اس وقت وہ اور ان کے تمام ساتھی ہوٹل کی تیسری منزل تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
اسی فلم کی ایک اور اداکارہ صنم سعید نے اپنی مشکلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ 25 مارچ سے واپس پاکستان جانے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ہر بار انہیں فلائٹ آپریشن بحال ہونے کی ایک نئی تاریخ بتا دی جاتی ہے۔ صنم نے کہا کہ مسلسل بیرون ملک رہنے سے ان کے پاس موجود پیسے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور وہ شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ 21 افراد کا رہنا اور کھانا پینا بہت مہنگا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی نژاد کینیڈین اداکارہ نایاب خان فلائٹ آپریشن بند ہونے کی وجہ سے کراچی میں موجود ہیں اور وہ بے چینی سے کینیڈا واپس جانے کی خواہش مند ہیں۔ نایاب خان کینیڈا میں رہتی ہیں اور وہ پاکستانی فلم 'جیپنیز کنیکشن‘ کی شوٹنگ کے لیے پاکستان آئی تھیں جس کا کچھ حصہ جاپان میں بھی فلمایا جانا تھا۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے نایاب خان نے بتایا کہ وہ جاپان میں اپنی فلم کی عکس کر رہی تھیں اور جیسے ہی وہ ختم ہوئی تو انہیں معلوم ہوا کہ ٹوکیو سے ٹورانٹو کی تمام پروازیں بند کردی گئی ہیں۔ نایاب خان کے مطابق انہوں نے مجبوراً فلم کے دیگر پاکستانی اداکاروں کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور وہ 22 مارچ کو کراچی پہنچیں تاہم اسی دوران پاکستان نے بھی اپنی فضائی حدود ہر قسم کی پروازوں کے لیے بند کر دیں جس کی وجہ سے وہ تاحال کراچی ہی میں ہیں، جہاں وہ ایک دوست کے گھر قیام پذیر ہیں۔
نایاب خان کے مطابق وہ کینیڈا کے سفارت خانے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جیسے ہی کوئی پرواز پاکستان سے کینیڈا جائے گی وہ ممکنہ طور پر اسی سے واپس چلی جائیں گی۔ اگرچہ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سے بھی کافی خوفزدہ ہیں کہ ایک بھرے ہوئے جہاز میں اتنا طویل سفر کہیں انہیں کورونا وائرس کا شکار نہ بنا دے اور دوسرا یہ کہ وہ جب بھی واپس پہنچیں گی، انہیں وہاں بھی 14 روز قرنطینہ میں رہنا ہو گا لیکن پھر بھی گھر جانے کی جلدی انہیں بہت ہے۔