تھائی لینڈ کا سیاسی بحران جاری
16 اپریل 2010بینکاک حکومت ڈرانے دھمکانے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے حربے استعمال کر چکی ہے، لیکن اس بحران کو ختم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ مظاہرین کے خلاف جمعہ کو تھائی پولیس کی ایک کوشش اس وقت کامیاب نہ ہو سکی، جب وہ احتجاجی تحریک کے تین رہنماؤں کو گرفتار کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ ایک رہنما تو ہوٹل کی بالکونی سے نیچے کود کر فرارہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دو کو سرخ ٹی شرٹس میں ملبوس مظاہرین پولیس کے ہاتھوں سے چھڑانے میں کامیاب رہے۔ پولیس ترجمان نے بتایا کہ یہ کارروائی بہت ہی مشکل تھی۔
حکومت نے ایک مرتبہ پھر مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ حکومت کے اس اعلان پر احتجاجی تحریک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ بینکاک کے ایک شاپنگ سینٹرسے تحریک کے ایک ترجمان نے دھمکی دی کہ اگر حکومت نےطاقت کا استعمال کیا تو وہ پورے علاقے کو زمین بوس کر دیں گے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ پولیس کے چنگل سے بچ نکلنے میں کامیاب ہونے والے تینوں رہنما دوبارہ حکومت مخالف تحریک میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریڈ شرٹس نے پہلے سے اعلان کردہ اپنی ایک احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ کشیدگی میں مزید اضافہ نہ ہو۔
کئی ہفتوں سے جاری ان مظاہروں میں اب تک 24 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 800 سے زائد زخمی ہیں۔ نائب وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت ’’دہشت گردوں‘‘ اور’’شر پسندوں‘‘ کو گرفتارکرکے انہیں ختم کر دے گی۔ اس کام کو سرانجام دینے کے لئے ایک خصوصی ٹیم بھی ترتیب دی گئی ہے۔
بینکاک کی سڑکوں پر اس وقت فوج دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ وزیراعظم ابھیسیت وجے جیوا نے اپنی ایک پریس کانفرنس وجہ بتائے بغیر منسوخ کردی ہے۔ مظاہروں کے باعث تھائی لینڈ میں سیاحت کی صنعت بری طرح متاثرہو رہی ہے جبکہ دوسری جانب بنکاک کے بازار حصص میں تین فیصد سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین کہہ رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال نے سرکاری حلقوں کو بے چین کر رکھا ہے اوراس وقت حکومت مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے مواقع کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ بینکاک میں اس وقت ہنگامی حالت نافذ ہے تاہم مظاہرین اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کررہے ہیں۔ تاہم جمعہ کے روز حکومت کے حامیوں نے گلابی رنگ کی قمیضیں پہن کر وزیراعظم وجے جیوا کے حق میں مظاہرہ بھی کیا۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: گوہر نذیر گیلانی