تہران حملوں کے بعد ٹرمپ کی چبھتی ہوئی تنبیہ ’سخت ناپسندیدہ‘
8 جون 2017امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات آٹھ جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کل بدھ سات جون کو تہران میں ملکی پارلیمان اور ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنما آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر کیے گئے شدت پسند تنظیم داعش کے خود کش بم حملوں میں تیرہ افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے لیے ہمدردی کا اظہار تو کیا لیکن ساتھ ہی ایک ایسی متنازعہ بات بھی کہہ دی، جس پر تہران حکومت کی طرف سے بہت سخت ردعمل ظاہر کیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کے بعد ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا، ’’جو ریاستیں دہشت گردی کی حمایت کرتی ہیں، انہیں یہ خطرہ بھی ہے کہ وہ خود بھی دہشت گردی کا شکار ہو سکتی ہیں۔‘‘ اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ان کی طرف سے ایران کے لیے ایک ایسی چبھنے والی تنبیہ تھی، جس میں تقریباﹰ یہ کہنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ایران وہی کاٹ رہا ہے، جو اس نے بیجا تھا۔
تہران حملوں میں 12 ہلاکتیں، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی
ایرانی پارلیمان اور خمینی کے مقبرے میں فائرنگ، دو ہلاک
ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ’’ہماری رائے میں جو ریاستیں دہشت گردی کی سرپرستی کرتی ہیں، انہیں یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اسی برائی کا شکار ہو جائیں، جس کی وہ ترویج کرتی ہیں۔‘‘
امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیان پر ایرانی حکومت کی طرف سے وزیر خارجہ جواد ظریف نے فوری طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ردعمل کو ’سخت ناپسندیدہ‘ قرار دیا۔ جواد ظریف نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ’’وائٹ ہاؤس کی طرف سے بیزار کن بیان اور امریکی سینیٹ کی طرف سے پابندیاں، اس وقت جب ایران امریکا کی حمایت یافتہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔‘‘
ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی صدر کی طرف سے تہران میں دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ بظاہر ہمدردی اور افسوس کے اظہار کے جواب میں یہ بھی کہا، ’’ایرانی عوام امریکا کی طرف سے دوستی کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘
داعش کے تمام حملہ آور ایرانی ہی تھے
تہران میں ملکی پارلیمان اور آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر حملہ ایسی پہلی خونریز دہشت گردانہ کارروائی ہے، جس کی ذمے داری شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کی ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق ان حملہ آوروں کی کل تعداد چھ تھی، وہ سب کے سب خود بھی ایرانی شہری تھے اور انہوں نے ملک کے مختلف حصوں سے داعش کی صفوں میں شمولیت اختیار کی تھی۔
ایران کی 90 فیصد تک آبادی شیعہ مسلم ہے جہاں سنی مسلم اقلیت زیادہ تر پاکستان اور عراق کے ساتھ سرحدی علاقوں میں رہتی ہے۔ ایران داعش اور دیگر شدت پسند گروپوں کے خلاف عراق اور شام میں لڑنے والا ایک اہم ملک بھی ہے۔