1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی برسی

عاطف توقیر اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ | ادارت | مقبول ملک | رابعہ بگٹی
4 نومبر 2025

ایران میں آج منگل چار نومبر کو سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد امریکی سفارت خانے پر قبضے کی سال گرہ منائی جا رہی ہے۔ یہ برسی ایرانی جوہری تنصیات پر امریکی بمباری کے بعد پہلی بار منائی جا رہی ہے۔

امریکی سفارت خانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کے بعد کا منظر
ایرانی طلبہ نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر کے سفارتی عملے کے یرغمال بنا لیا تھاتصویر: AP/picture alliance

منگل کے روز ایران میں سن 1979 میں تہران میں قائم امریکی سفارت خانے پرقبضے کی سالانہ یادگاری تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ رواں برس جون میں تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایران میں ان سالانہ تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔

چار نومبر 1979 کو ایرانی طلبہ نے سفارت خانے کے محافظوں کو دھکیلتے ہوئے عمارت پر قبضہ کر لیا تھا اور درجنوں امریکیوں کو یرغمال بنا لیا تھا، یہ بحران ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا تھا۔

تہران میں سابقہ امریکی سفارت خانے کے باہر امریکی اور اسرائیلی پرچم جلائے گئےتصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

اس واقعے کی برسی کے موقع پر منگل کے روز ہزاروں افراد تہران کے وسطی علاقے میں اس مقام پر پہنچے، جہاں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کیا گیا تھا۔ ایسے میں انہوں نے اسرائیل اور امریکہ مخالف نعرے بازی کی۔ بعض مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے پتلے بھی اٹھائے ہوئے تھے جب کہ امریکی اور اسرائیلی پرچموں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی اسی نوعیت کے اجتماعات ہوئے۔

ریلیوں کے اطراف ایرانی میزائلوں کے ماڈل نمائش کے طور پر رکھے گئے تھے جن پرامریکی مخالف نعرے درج تھے جب کہ ان ریلیوں میں یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والی سینٹری فیوج مشینوں کی نقول بھی دکھائی گئیں۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پیر کے روز طلبہ سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے کوئی آثار نہیں۔ یہی پیغام منگل کی ریلیوں میں آویزاں بینرز پر بھی دیکھا گیا۔

ایرانی سپریم لیڈر نے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے کوئی آثار نہیںتصویر: Iranian Supreme Leader's Office/ZUMA/picture alliance

اس سال جون کی جنگ کے دوران اسرائیل کے فضائی حملوں میں تقریباً 1,100 ایرانی شہری مارے گئے تھے، جن میں اعلیٰ فوجی کمانڈر اور جوہری سائنسدان بھی شامل تھے۔ اس دوران امریکہ نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی تھی۔ اسرائیل پر ایران کے جوابی میزائل حملوں میں 28 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔

یہ حملے ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے پانچ ادوار کی مذاکراتی ناکامی کے بعد کیے گئے تھے۔

تہران کی ریلی سے ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے خطاب کیا۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ایرانی سائنسدانوں کو اس لیے قتل کر رہے ہیں کیونکہ مغرب ''ایک خود مختار، متحد اور طاقتور ایران‘‘ کا مخالف ہے۔

انہوں نے سابق امریکی سفارت خانے کو ''جاسوسوں کا اڈہ‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔

1979 میں عسکریت پسند طلبہ کے قبضے اور 52 امریکیوں کو 444 دن تک یرغمال رکھنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی سالگرہ

01:46

This browser does not support the video element.

اسرائیل کے ساتھ حالیہ تنازعے کے بعد ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی سے بھی دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ ایران کے پاس اب بھی 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے، جو ہتھیاروں کے درجے (90 فیصد) تک پہنچنے سے محض ایک تکنیکی قدم دور ہے۔

ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم مغربی ممالک اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ تہران کے پاس ایک منظم جوہری ہتھیار پروگرام موجود تھا۔

رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ نے ایران کے جوہری پروگرام  کے باعث اس ملک پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں، جس سے تہران پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ ان پابندیوں کے تحت ایران کے غیر ملکی اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی لگ گئی ہے اور بیلسٹک میزائل پروگرام میں کسی بھی اضافی پیش رفت پر ممکنہ جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔

 

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں