تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی برسی
4 نومبر 2025
منگل کے روز ایران میں سن 1979 میں تہران میں قائم امریکی سفارت خانے پرقبضے کی سالانہ یادگاری تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ رواں برس جون میں تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب ایران میں ان سالانہ تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔
چار نومبر 1979 کو ایرانی طلبہ نے سفارت خانے کے محافظوں کو دھکیلتے ہوئے عمارت پر قبضہ کر لیا تھا اور درجنوں امریکیوں کو یرغمال بنا لیا تھا، یہ بحران ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا تھا۔
اس واقعے کی برسی کے موقع پر منگل کے روز ہزاروں افراد تہران کے وسطی علاقے میں اس مقام پر پہنچے، جہاں امریکی سفارت خانے پر قبضہ کیا گیا تھا۔ ایسے میں انہوں نے اسرائیل اور امریکہ مخالف نعرے بازی کی۔ بعض مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے پتلے بھی اٹھائے ہوئے تھے جب کہ امریکی اور اسرائیلی پرچموں کو نذر آتش بھی کیا گیا۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملک کے دیگر شہروں اور قصبوں میں بھی اسی نوعیت کے اجتماعات ہوئے۔
ریلیوں کے اطراف ایرانی میزائلوں کے ماڈل نمائش کے طور پر رکھے گئے تھے جن پرامریکی مخالف نعرے درج تھے جب کہ ان ریلیوں میں یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والی سینٹری فیوج مشینوں کی نقول بھی دکھائی گئیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پیر کے روز طلبہ سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے کوئی آثار نہیں۔ یہی پیغام منگل کی ریلیوں میں آویزاں بینرز پر بھی دیکھا گیا۔
اس سال جون کی جنگ کے دوران اسرائیل کے فضائی حملوں میں تقریباً 1,100 ایرانی شہری مارے گئے تھے، جن میں اعلیٰ فوجی کمانڈر اور جوہری سائنسدان بھی شامل تھے۔ اس دوران امریکہ نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کی تھی۔ اسرائیل پر ایران کے جوابی میزائل حملوں میں 28 اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
یہ حملے ایران اور امریکہ کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے پانچ ادوار کی مذاکراتی ناکامی کے بعد کیے گئے تھے۔
تہران کی ریلی سے ایرانی پارلیمان کے اسپیکر محمد باقر قالیباف نے خطاب کیا۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل پر الزام لگایا کہ وہ ایرانی سائنسدانوں کو اس لیے قتل کر رہے ہیں کیونکہ مغرب ''ایک خود مختار، متحد اور طاقتور ایران‘‘ کا مخالف ہے۔
انہوں نے سابق امریکی سفارت خانے کو ''جاسوسوں کا اڈہ‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
1979 میں عسکریت پسند طلبہ کے قبضے اور 52 امریکیوں کو 444 دن تک یرغمال رکھنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ حالیہ تنازعے کے بعد ایران نے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی نگرانی سے بھی دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ ایران کے پاس اب بھی 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے، جو ہتھیاروں کے درجے (90 فیصد) تک پہنچنے سے محض ایک تکنیکی قدم دور ہے۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم مغربی ممالک اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ تہران کے پاس ایک منظم جوہری ہتھیار پروگرام موجود تھا۔
رواں برس ستمبر میں اقوام متحدہ نے ایران کے جوہری پروگرام کے باعث اس ملک پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں، جس سے تہران پر دباؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ ان پابندیوں کے تحت ایران کے غیر ملکی اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں، اسلحے کی خرید و فروخت پر پابندی لگ گئی ہے اور بیلسٹک میزائل پروگرام میں کسی بھی اضافی پیش رفت پر ممکنہ جرمانے عائد کیے گئے ہیں۔