1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے تیس سال

4 نومبر 2009

چار نومبر سن 1979ء کو ایرانی طالب علموں نے امریکی سفارت خانے میں داخل ہوکر 52 امریکیوں کو 444 روز تک یرغمال بناکے رکھا تھا۔ تب سے امریکی سفارت خانے پر قبضے کے اس واقعےکو ایران میں بھرپور انداز میں یاد کیا جاتا ہے۔

1979ء میں ایرانی طلبہ امریکی سفارت خانے میں داخل ہو رہے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb

ایرانی دارالحکومت تہران میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کی تیسویں سالگرہ کے موقع پرامریکہ مخالف مظاہرے ہوئے تاہم اس موقع پر بعض حکومت مخالف مظاہرین نے صدر احمدی نژاد کے خلاف بھی احتجاج کیا۔

بعض عینی شاہدین اور ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق انقلابی گارڈز اور سیکیورٹی فورسز نے صدر احمدی نژاد کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف ’’طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا۔‘‘

ایران میں سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے تاکہ صدر احمدی نژاد کے مخالفین سفارت خانے پر قبضے کی سالگرہ کے موقع کا فائدہ اٹھا کرحکومت مخالف ریلیاں نہ نکال سکیں۔

ایران میں اپوزیشن کے حامی مظاہرہ کرتے ہوئےتصویر: shooresh1917

آج سے ٹھیک تیس سال قبل یعنی چار نومبر سن 1979ء کو ایرانی طالب علموں نے تہران میں قائم امریکی سفارت خانے کے اندر داخل ہوکر 52 امریکیوں کو مسلسل 444 روز تک یرغمال بناکے رکھا تھا۔ تب سے امریکی سفارت خانے پر قبضے کے اس واقعے کو ایران میں بھرپوراندازمیں یاد کیا جاتا ہے۔

ہر سال چار نومبر کو ایران میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے اورعوام کی ایک بڑی تعداد اس روز’ہفت تیر اسکوائر‘ پر جمع ہو کرامریکہ کے خلاف مظاہرے کرتی ہے اور نعرے لگاتی ہے۔

ایرانی نوجوانوں کی طرف سے امریکی سفارت خانے کے اندر داخل ہونے کے اس واقعے کو ایران میں انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اُس وقت ایرانی نوجوانوں کی خاتون ترجمان معصومہ ابتکار نے اس واقعے کی اہمیت کے بارے میں کہا تھا ’’ایرانی نوجوانوں نے اپنے طور پر یہ کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نوجوانوں کی اس انقلابی تحریک کا مقصد ایران کو نقصان پہنچانے اورکمزور کرنے کے تمام منصوبوں کو ناکام بنانا ہے اوراس ایکشن سے ہم ایرانی انقلاب کی سالمیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔‘‘

معصومہ ابتکاربعد میں ایران کی پہلی خاتون نائب صدر منتخب ہوئی۔ اس وقت وہ تہران میں ’امن اور ماحولیات مرکز‘ کی ڈائریکٹر ہیں۔

تہران میں امریکہ خلاف مظاہرے کا منظرتصویر: picture-alliance/ dpa

ایران میں اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ امریکہ، ایران کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کرتا ہے تاہم مغربی ملکوں کا الزام ہے کہ ایران جوہری بم بنانے کی تیاری میں ہے اوراس وجہ سے ایران، اسرائیل کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔

ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ہراعتبار سے پُر امن ہے تاہم مغرب کو اس دعوے پر زبردست خدشات اور شکوک و شبہات ہیں۔

امریکہ کے دورے پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے منگل کو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب میں ایران کے حوالے سے کہا کہ جرمنی کسی قیمت پر بھی ایران کو بطورجوہری طاقت تسلیم نہیں کرے گا۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے حالیہ بیان میں کہا کہ اس بات کا فیصلہ ایران کے ہاتھ میں ہے کہ اپنے لوگوں کے لئے کیسا مستقبل چاہتا ہے۔ دریں اثناء ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنہ ائی نے اپنے حالیہ بیان میں امریکہ کو ایک ایسی’’گستاخ اور مغرور طاقت‘‘ قرار دیا، جس کے ’’قول و فعل میں تضاد‘‘ ہے۔

رپورٹ : گوہر گیلانی

ادارت : عدنان اسحاق

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں