1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہران میں مظاہرے اور برطانوی سفیر کی گرفتاری و رہائی

12 جنوری 2020

ایرانی دارالحکومت اور ملک کے کئی دیگر شہروں میں عوام نے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہو کر خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران برطانوی سفیر کی گرفتاری و رہائی پر لندن حکومت نے پرزور احتجاج کیا ہے۔

Iran | Trauer und Proteste | Flugzeugabsturz
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

برطانوی حکومت نے ایرانی دارالحکومت تہران میں تعینات اپنے سفیر کو کئی گھنٹے تک حراست میں رکھنے پر شدید احتجاج کیا ہے۔ تہران میں قائم نیوز ایجنسی تسنیم کے مطابق برطانوی سفیر کو ایرانی دارالحکومت میں واقع امیر کبیر یونیورسٹی کے سامنے طلبا کو حکومت مخالف مظاہرے کے دوران اشتعال دلانے پر کئی گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا تھا۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈومینیک راب نے سفیر کی حراست کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی مظاہروں کے حوالے سے پر ٹویٹ بھی کیے ہیں۔ ان انہوں نے واضح کیا کہ ایران میں مظاہروں کی صورت حال پر نگاہ رکھی جا رہی ہے۔

تہران کی امیر کبیر یونیورسٹی کے باہر سینکڑوں طلبا حکومت مخالف مظاہرے میں شریک ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔

ایرانی دارالحکومت میں نئے مظاہرے اس حکومتی اعتراف کے بعد شروع ہوئے کہ یوکرائنی مسافر بردار جہاز غلطی سے میزائل کا نشانہ بنا۔ تہران میں ایک ہزار کے قریب عام لوگ یوکرائنی طیارہ مار گرانے کے حکومتی اعتراف کے بعد احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلے۔

ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کے مطالبے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔ یہ مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں ہوئے۔

ایرانی شہری یوکرائنی ہوائی جہاز کے مسافروں کی یاد میں شمعیں روشن کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi

احتجاج میں شریک مظاہرین سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ایسا ہی مطالبہ ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی کی طرف سے بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔

گزشتہ برس نومبر میں پٹرول قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ یہ مظاہرہ پندرہ نومبر سن 2019 کو شروع ہوئے تھے۔

ع ح ⁄ اب ا (روئٹرز، اے ایف پی)

پاکستان اور افغانستان سے ایران کیا توقع کر رہا ہے؟

01:58

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں