تہہ خانے میں دوسری عالمی جنگ کے ٹینک کا کیا بنے گا؟
4 اگست 2021
چوراسی سالہ جرمن نے دوسری عالمی جنگ کے زمانے کا پینتھر نامی ٹینک خریدا اور کئی برسوں تک اسے اپنے تہہ خانے جیسے گیراج میں چھپا کر رکھا۔ اس تہہ خانے سے ملنے والے دیگر ساز و سامان نے پولیس کو بھی حیران کر دیا تھا۔
اشتہار
سن دو ہزار پندرہ میں جرمن تفتیش کاروں نے شمالی جرمن شہر کیل کے قریب ایک گھر پر چھاپہ مارا۔ پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ اس گھر میں چوری شدہ نازی آرٹ موجود ہے۔ لیکن پولیس کو وہاں سے دوسری عالمی جنگ کا ایک ٹینک، ایک تارپیڈو، مارٹر گولے، اینٹی ایئرکرافٹ گنیں اور کئی دیگر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ پندرہ سو سے زائد گولیوں کے راؤنڈز ملے تھے۔
جرمنی میں جنگی ہتھیاروں کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس عمر رسیدہ شخص کے خلاف مجرمانہ مقدمے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ ملنے والے جنگی ہتھیار کس قدر فعال تھے۔
پینتھر ٹینک کی تاریخ
سن1941 میں نازی جرمنی کے سوویت یونین پر حملے کے بعد پینتھر ٹینک کی تیاری تیزی سے جاری تھی۔ سوویت یونین پر اچانک حملے کے باوجود نازی فوجی رہنما سوویت T34 ٹینک کی استعداد سے متاثر ہوئے۔ نازی فوج نے پینتھر کا استعمال سن 1943 میں کرنا شروع کیا۔ یہ ٹینک اپنی فائر طاقت اور تیز نقل و حرکت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ خاص طور پر یہ جنگ میں قیمتی تھا کیونکہ ان دنوں دوسرے ٹینکوں کے مقابلے میں اس کی رینج زیادہ تھی، یعنی اس طرح نازی فوجیوں کو دشمن کے حملے سے پہلے ہی اسے ہدف بنانے کی صلاحیت حاصل ہو گئی تھی۔
اس طرح کے زیادہ تر ٹینک دوران جنگ ہی تباہ ہو گئے تھے اور جو باقی بچے تھے، انہیں بعدازاں سکریپ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ تاہم اتحادی افواج نے ایسے متعدد ٹینکوں کو استعمال بھی کیا تھا۔ جرمن ملٹری ہسٹری میوزیم سے وابستہ ڈاکٹر ژان کنڈلر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے، ''کچھ ٹینکوں کو اتحادی افواج نے استعمال کیا تاکہ ایسے ٹینکوں کی خامیوں اور خوبیوں کو جانا جا سکے۔‘‘
پولیس کو ملنے والا یہ پینتھر ٹینک سن 1977 میں ہتھیاروں کے ایک برطانوی تاجر کو ملا تھا۔ جرمن یادگاری اشیاء جمع کرنے والے کلاؤس ڈیٹر ایف کا رابطہ اس شخص سے ہوا اور یوں یہ ٹینک بذریعہ ہالینڈ جرمنی پہنچا دیا گیا۔ اُس وقت اس ٹینک کی مرمت پر پانچ لاکھ ڈوئچے مارک خرچ ہوئے تھے، جو اب تقریبا دو لاکھ پچپن ہزار یورو بنتے ہیں۔
پولیس کا چھاپہ اور بین لاقوامی میڈیا
پولیس کے چھاپے کے بعد ٹینک اور دیگر ہتھیاروں کو ضبط کرنے کے لیے خاص طور پر فوجیوں کو وہاں بھیجا گیا تھا۔ بیس اہلکاروں نے نو گھنٹوں میں ٹینک کو کلاؤس ڈیٹر ایف کے گھر سے نکالا۔ دوسری عالمی جنگ کے اس ٹینک کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا کی زینت بھی بنیں۔ مقامی مئیر الیگزانڈر اورتھ کا 'یو ایس اے ٹوڈے‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' کچھ لوگ ٹرینوں کے بھاپ والے انجن جمع کرتے ہیں اور کچھ کو ٹینک پسند آتے ہیں۔‘‘
اشتہار
ایک مہنگا مشغلہ اور مقدمے کا آغاز
اب چار برس بعد اس مقدمے کا آغاز کیا گیا ہے۔ جج یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا کلاؤس ڈیٹر ایف نے جرمن قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ ضبط کیے گئے ہتھیاروں کا مستقبل کیا ہو گا؟ بہت سے مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نازی دور کے اس ٹینک کی مرمت کے لیے اس قدر زیادہ پیسہ کیوں خرچ کیا گیا؟ جس وقت یہ ٹینک ضبط کیا گیا تھا، اس وقت ملزم کی عمر اٹھہتر برس تھی اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ اسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
وکیل دفاع کے مطابق ان کے موکل نازیوں سے ہمدردی نہیں رکھتے اور یہ کہ ٹینک کی مرمت ان کی زندگی کا ایک مشغلہ بن گیا تھا۔ اس حوالے سے کوئی بھی عدالتی فیصلہ رواں ماہ کے اوآخر میں سامنے آ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ملزم کو معطل سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ جرمن ملٹری ہسٹری میوزیم سے وابستہ ڈاکٹر ژان کنڈلر کا کہنا تھا، ''دنیا میں ایسے افراد بھی ہیں، جن کے پاس ذاتی ٹینک ہیں لیکن جرمنی میں قوانین نہایت سخت ہیں۔‘‘
آن بیٹسن (ا ا / ع ت)
جب جرمن شہر ڈریسڈن راکھ کا ڈھیر بنا تھا
ڈریسڈن جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک تھا لیکن پھر ٹھیک ستّر برس پہلے دوسری عالمی جنگ میں اس پر اتحادی افواج نے اتنی شدید بمباری کی کہ پچیس ہزار انسان زندہ جل گئے اور شہر راکھ اور ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Getty Images/Matthias Rietschel
بمباری، تباہی اور لوٹ مار
دوسری عالمی جنگ کے دوران تیرہ فروری 1945ء کو انگلینڈ سے 245 لنکاسٹر طیارے روانہ ہوئے، جن کا رُخ جرمن شہر ڈریسڈن کی جانب تھا۔ شب 9 بج کر 39 منٹ پر شہر میں سائرن بجنا شروع ہو گئے۔ اس کے ساتھ ہی موت کا کھیل شروع ہو گیا اور صرف 23 منٹ میں اس پر برسائے گئے بموں نے شہر کے مرکزی حصے میں ایک سے دوسرے سرے تک آگ لگا دی۔ برطانوی اور امریکی طیاروں کی بمباری نے شہر کے پندرہ کلومیٹر علاقے کو ملیا میٹ کر ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
رائل چیپل کھنڈر میں تبدیل
وسط فروری 1945ء میں ہونے والی اس بمباری میں ڈریسڈن کے رائل چیپل (گرجا گھر) کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ چھت اور گنبد منہدم ہو کر اندر جا گرے۔ یہ چرچ جرمن صوبے سیکسنی میں بننے والی بڑی کلیسائی عمارات میں سے ایک ہے۔ باقی جرمنی کی طرح یہاں بھی ملبہ ہٹانے کا کام بڑی حد تک خواتین نے انجام دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مارٹن لُوتھر بھی نہ بچ سکے
’چرچ آف آور لیڈی‘ کے عین سامنے ممتاز مصلح مارٹن لُوتھر کے لیے بنائی گئی یادگار واقع ہے۔ یہ یادگار بھی بمباری کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئی۔ مارٹن لُوتھر کا یہ مجسمہ نامور مجسمہ ساز آڈولف فان ڈونڈورف نے 1861ء میں تخلیق کیا تھا لیکن اسے نصب کہیں 1885ء میں کیا گیا۔ لُوتھر نے 1516ء اور 1517ء میں ڈریسڈن کے دورے کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بے دریغ بمباری کی ایک نمایاں مثال
ڈریسڈن میں باروک طرزِ تعمیر کا شاہکار ’چرچ آف آور لیڈی‘ 1726ء اور 1743ء کے درمیان تعمیر ہوا۔ ستر سال پہلے کی بمباری سے اسے کافی نقصان پہنچا۔ 1993ء تک اِسے اسی حالت میں ’بے دریغ بمباری کی ایک یادگار‘ کے طور پر باقی رکھا گیا تاہم تب اسے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی چوٹی پر نصب سنہری صلیب برطانیہ کے ایک ایسے کاریگر نے تیار کی، جس کے والد نے پائلٹ کے طور پر اس شہر پر کی گئی بمباری میں حصہ لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
شہر کی نمایاں ترین علامت ایک نئی شان کے ساتھ
1994ء سے لے کر 2005ء تک ’چرچ آف آور لیڈی‘ کو دنیا بھر سے آنے والے عطیات کی مدد سے نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ اس تعمیر پر مجموعی طور پر تقریباً 130 ملین یورو لاگت آئی۔ اکیانوے میٹر بلند یہ چرچ اور اس کے آس پاس باروک طرزِ تعمیر میں بنائی گئی رہائشی عمارات صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن میں سیاحوں کی توجہ کا ایک نیا مرکز بن چکی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hiekel
تباہی کے اثرات ڈھونڈے سے نہیں ملتے
آج کل سیاح ڈریسڈن کے مرکز میں واقع پیلس اسکوائر اور کیتھولک رائل چیپل کی سیر کرتے ہیں اور بحالی کے بعد نئی آن بان کے ساتھ کھڑی ان عمارات کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیکسنی بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کا صوبہ تھا تاہم پولینڈ کی بادشاہت کے تاج کا حقدار ہونے کے لیے آؤگسٹ ڈیئر شٹارکے نے کیتھولک عقیدہ اپنا لیا تھا اور اِسی لیے اُنہوں نے 1739ء اور 1754ء کے درمیان یہ کیتھولک عبادت گاہ بنوائی۔
تصویر: picture alliance/Johanna Hoelzl
نئی آن بان کے ساتھ
فروری 1945ء میں تباہ ہونے والی لُوتھر کی یادگار کی مرمت اور تجدید کا کام کہیں 1955ء میں عمل میں آیا۔ اس مجسمے کی بحالی کا عمل 2003ء اور 2004ء میں انجام پایا۔ تب تک یہ مجسمہ جنگ اور تباہی کی ایک یادگار کے طور پر ’چرچ آف آور لیڈی‘ کے سامنے پڑا رہا۔ آج کل یہ مجسمہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے اور شہر بھر کے نوجوان بھی اسی کے سائے میں ایک دوسرے سے ملتے اور یہاں اپنا وقت گزارتے ہیں۔
تصویر: imago/Chromorange
ایلبے کا فلورنس
آج کا ڈریسڈن ایک بار پھر جرمنی کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ دریائے ایلبے اس کے بیچوں بیچ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اپنی باروک طرزِ تعمیر کی حامل عمارات کی وجہ سے ڈریسڈن کو ’ایلبے کا فلورنس‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈریسڈن کی آبادی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یوں یہ جرمنی کے بارہ بڑے شہروں میں سے ایک گنا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Lander
2015ء میں 1945ء کی تباہی کا نظارہ
ڈریسڈن ہی میں مقیم ماہرِ تعمیرات یادگار عزیزی نے، جن کے والدین کا تعلق ایران سے ہے، گیس کی ایک بڑی سابقہ ٹینکی کے اندر دیواروں پر 1945ء کی تباہی کی تصاویر کچھ اس انداز سے آویزاں کی ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر انسان خود کو اُس سارے منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور انتہائی قریب سے دیکھتا ہے کہ کیسے ڈریسڈن شہر کا مرکز آگ اور دھوئیں کی لپیٹ میں ہے۔