1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہیں کھلنے کے ساتھ ساتھ پرزم اپنا رنگ دکھا رہا ہے

عدنان اسحاق18 جولائی 2013

جاسوسی کے امریکی پروگرام پرزم کے نئے پہلو سامنے آنے سے جرمن حکومت دباؤ میں ہے تو شہری حقوق کی متعدد امریکی تنظیموں نے NSA کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے اور سنوڈن کے معاملے پر روس اور امریکی تعلقات میں سرد مہری آ رہی ہے۔

تصویر: Mladen Antonov/AFP/Getty Images

پرزم ہی کے نام سے جاسوسی کے ایک اور پروگرم نے برلن حکومت کو حیران کر دیا ہے۔ اس دوران جاسوسی کے اسیکنڈل میں نئی غیر یقینی کی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ جرمن روزنامے بلڈ نے پرزم ٹو کے راز کو افشاء کیا ہے۔ بلڈ کے مطابق پرزم ٹو افغانستان کے لیے ہی تھا اور یہ ’ JWICS‘ نامی انتہائی خفیہ کمپیوٹر نیٹ ورک کے ذریعے چلتا تھا۔ اس پروگرام تک صرف امریکی خفیہ ادارے کے اہلکاروں اور وزارتی سطح کے اعلی امریکی عہدیداروں کو رسائی حاصل تھی۔ اسی طرح آئی سیف دستوں کے لیے بھی ایک خفیہ پروگرام تھا، جس پر موجود مواد نیٹو مشن میں شامل تمام ممالک کی دسترس میں تھا۔

جرمن خفیہ ادارے بی این ڈی کے مطابق نیٹو اور آئی سیف کے لیے پرزم اور قومی سلامتی کے امریکی ادارے کے پرزم پروگرام میں واضح فرق ہے۔ ایک پروگرام کا مقصد افغانستان میں مشتبہ دہشت گردوں کی نگرانی کرتے ہوئے نیٹو دستوں کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا جبکہ دوسرا پرزم پروگرام وہ ہے ، جس کی مدد سے این ایس اے نے جرمن سرزمین پر لاکھوں شہریوں کا ڈیٹا جمع کیا ہے۔

امریکا میں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون گفتگو کی خفیہ نگرانی کرنے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا ہےتصویر: imago

روزنامے بلڈ نے امریکی ذرائع کے توسط سے لکھا ہے کہ افغانستان میں پرزم پروگرام قومی سلامتی کے امریکی ادارے این ایس اے کے ڈیٹا بینکس مارینا اور مین وے کی مدد سے چلتا تھا۔ مارینا میں انٹرنیٹ سے متعلق تمام تفصیلات جمع کی جاتی ہیں جبکہ مین وے ٹیلیفون کے ذریعے ہونے والی گفتگو کے حوالے سے ڈیٹا جمع کرتا ہے۔

اس دوران امریکا میں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون گفتگو کی خفیہ نگرانی کرنے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا ہے۔ شہری حقوق کی تنظیموں نے قومی سلامتی کے امریکی ادارے کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ اسی دوران پرزم کو منظر عام پر لانے والے سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن کو پناہ دینے کے معاملے میں روس اور امریکا کے مابین تعلقات میں سرد مہری بھی آتی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں