1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتبھارت

تیجس کریش بھارتی فضائیہ کے سنگین مسائل کا پردہ فاش کرتا ہے

25 نومبر 2025

دبئی کے ایئر شو کے حادثے نے جنگی طیاروں کی برآمد کرنے کے بھارتی عزائم کو شدید دھچکا پہنچایا ہے اور یہ بحث بھی تیز ہو گئی ہے کہ آیا تیجس جنگی طیارہ بھارتی فضائیہ کے پرانے بیڑے کی جگہ لینے میں مددگار ثابت ہو گا؟

تیجس کی تباہی کا منظر
تیجس کی تباہی کا واقعہ عالمی دفاعی صنعت کے مندوبین کے سامنے پیش آیا، جس میں ایک سینیئر بھارتی پائلٹ کی جان بھی چلی گئی تصویر: Jens Krick/Flashpic/picture alliance

گزشتہ ہفتے دبئی ایئر شو میں ایروبیٹک مشق کے دوران بھارتی ساخت کا ہلکا جنگی طیارہ تیجس اے ون مارک کا اس طرح گر کر تباہ ہونا بھارت کی ایرو اسپیس کی امیدوں اور عزائم کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔

اس حادثے میں ایک سینیئر بھارتی پائلٹ کی جان بھی چلی گئی اور یہ واقعہ عالمی دفاعی صنعت کے مندوبین کے سامنے پیش آیا، جس سے نہ صرف بھارت کی منفی تشہیر ہوئی بلکہ اس نے ممکنہ طور پر دنیا بھر میں ہتھیاروں کے خریداروں کی دلچسپی کو بھی کم کر دیا۔

آئی اے ایف نے حادثے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ اس کا پتہ چل جائے گا کہ آیا اس کی وجہ مکینیکل ناکامی، پائلٹ کی غلطی، یا دیگر عوامل تھے۔

البتہ اس قسم کے طیارے کا یہ پہلا حادثہ نہیں ہے۔ مارچ 2024 میں، ایک تیجس جیٹ تربیتی پرواز کے دوران ریاست راجستھان میں گر کر تباہ ہو گیا تھا لیکن اس وقت پائلٹ بحفاظت باہر نکل گیا تھا۔

فضائیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ یہ حادثہ مگ 21 جیسے پرانے طیاروں پر تیجس کی برتری کو کمزور نہیں کرتا، لیکن یہ چین کے جدید ترین جے 16 اور جے 20 جیسے لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں کم صلاحیت رکھتا ہے۔

اس اہلکار نے مزید کہا، "یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ گرچہ تیجس بھارتی فضائیہ کی جدید کاری کے لیے اہمیت رکھتا ہے، تاہم جب حریف ممالک کی طرف سے تعینات کیے گئے جدید ترین پانچویں نسل کے جنگی طیاروں کے مقابلے میں اس کا موازنہ کیا جائے، تو یہ ان سے کم پڑتا ہے۔"

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو گھریلو پیداوار پر توجہ دینے کے بجائے فوری طور پر فضائیہ کی صلاحیت کو ترجیح دینی چاہیےتصویر: Jon Gambrell/AP Photo/picture alliance

چیلنجنگ اسٹریٹجک لینڈ اسکیپ

آئی اے ایف کے جنگی بیڑے کو مضبوط اور جدید بنانے کی ضرورت اس کے پڑوسی پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کے اسٹریٹجک چیلنجوں کے درمیان زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

بھارتی اور پاکستانی افواج کے درمیان مئی میں شدید فضائی جنگی تبادلے ہوئے تھے اور اس دوران کسی بھی تنازعہ میں فضائی طاقت کی اہمیت اجاگر ہو گئی تھی۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے جھڑپوں کے دوران مبینہ طور پر بھارتی طیاروں کے خلاف چینی ساختہ جے 10 سی اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے پی ایل 15 میزائلوں کا استعمال کیا۔ امریکی حکام کے مطابق اس لڑائی میں پاکستان نے بھارت کے سات یا آٹھ جنگی طیارے مار گرائے تھے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ دبئی ایئر شو میں پاکستانی فضائیہ کا دستہ بھی موجود تھا۔ اور اس نے "دوستانہ ملک" کے ساتھ اپنے جے ایف 17 تھنڈر بلاک سوم جنگی طیارے فروخت کرنے اور فراہم کرنے کے ایک عارضی معاہدے پر دستخط کا انکشاف بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ طیارہ چین کے ساتھ مل کر تیار کیا گیا ہے۔

دریں اثنا، چین فضائی طاقت میں بھی امریکہ کے شانہ بشانہ چلنے میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

بھارتی فائٹر جیٹ کے سابق کیپٹن سندیپ بنسل کا کہنا ہے کہ "چین نے اپنے ففتھ جنریشن فائٹر ایئر کرافٹ (ایف جی ایف اے)  یعنی جے 20 کو سروس میں شامل کر لیا ہے، جس سے بھارت کے لیے اسٹریٹجک خدشات بڑھ گئے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "جے 20 کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے، بھارت کو اپنی فضائی دفاعی صلاحیتوں کا از سر نو جائزہ لینے اور اپنی اسٹریٹجک منصوبہ بندی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ پائے جانے والے خلا کو ختم کرنے کے لیے بھارت اپنے پانچویں نسل کے اسٹیلتھ فائٹر، جو ایڈوانسڈ میڈیم کمبیٹ ایئر کرافٹ (اے ایم سی اے) کے نام سے معروف ہے، تیار کرنے میں سرگرم عمل ہے۔

دبئی ایئر شو میں پاکستانی فضائیہ کا دستہ بھی موجود تھا, جس نے دوستانہ ملک کے ساتھ اپنے جے ایف 17 تھنڈر بلاک سوم جنگی طیارے کو فروخت کرنے اور فراہم کرنے کے ایک عارضی معاہدے پر دستخط کیےتصویر: picture-alliance/dpa/epa

تاہم اس کے 2035 سے پہلے فضائیہ میں شمولیت کے لیے تیار ہونے کی امید نہیں ہے۔ بنسل کا کہنا ہے کہ "اس لیے ہمیں خریداری اور انہیں حاصل کرنے میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔"

دفاعی تجزیہ کار اور بھارتی آرمی میں سابق بریگیڈیئر ایس کے چٹرجی کا بھی یہی کہنا ہے۔ انہوں نے چین کی طرف سے برسوں پہلے جے 20 طیارہ تیار کرنے اور شامل کرنے کے باوجود بھارت کے پاس پانچویں نسل کے جیٹ کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "صورتحال تشویشناک ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "اس میں یہ حقیقت بھی شامل کر لیں کہ یہ پلیٹ فارم پاکستان بھی کھڑا کرے گا۔ یہ حقیقت تو آنکھ کھولنے والی ہے کہ چین اب چھٹی نسل کے دو لڑاکا طیاروں کا تجربہ کر رہے ہیں۔"

چین کی بڑھتی ہوئی فضائی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے، دفاعی ماہر نے بھارت کو تیزی سے اے ایم سی اے کو تیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

دفاعی خریداری ایک بڑا چیلنج

جدید کاری کی کوششوں میں سست رو خریداری ایک اور چیلنج ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھی دفاعی پیداوار میں خود انحصاری پر زور دیا ہے اور اسلحے کی درآمد کو مقامی طور پر تیار کردہ آلات سے بدلنے پر زور ہے۔

اس کے باوجود بھارت دنیا میں فوجی سامان کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔

قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹریٹ کی ایک سابق رکن تارا کارتھا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ایک نئے طیارے کی تیاری کسی بھی مرحلے پر مشکلات سے دوچار ہے، اور بھارت کہیں زیادہ تجربہ اور ٹیکنالوجی رکھنے والے دوسرے ممالک کے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

تاہم ان کے بقول 'میک ان انڈیا' کا راستہ طے ہو چکا ہے، اور اس میں پیچھے ہٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن چٹرجی کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کو گھریلو پیداوار پر توجہ دینے کے بجائے فضائیہ کی صلاحیت کو ترجیح دینی چاہیے۔

انہوں نے کہا، "اب کچھ سخت فیصلے کرنے ہوں گے، بشمول غیر ملکی خریداروں پر غور کرنا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ فضائیہ کے پاس مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کافی صلاحیت موجود ہے۔"

بعض دفاعی پیداوار میں نجی شعبے کی مزید شمولیت پر زور دے رہے ہیں۔

آئی اے ایف کے اعلیٰ عہدیدار نے کہا، "ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور ایچ اے ایل کی بیوروکریٹک اجارہ داری جدت کو روکتی ہے۔ ہمیں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے اور سست روی کو ختم کرنا چاہیے، ورنہ اسکواڈرن اور ٹیکنالوجی میں ہم پیچھے ہی رہیں گے۔ کمزوری سر پر کھڑی ہے اور اصلاح اب ضروری ہے۔"

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی صورتحال، عوام کیا کہتے ہیں؟

04:14

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں