نیپال کے ایک گاؤں میں گہرے پانی کے تالاب میں تیرہ بندر ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ یہ تالاب جنگلاتی قصبے میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
اشتہار
کوہِ ہمالیہ کے دامن میں واقع جمہوریہ نیپال کے ایک پہاڑی جنگلاتی گاؤں کے تالاب میں تیرہ جنگلی بندر ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ گاؤں دارالحکومت کھٹمنڈو سے ایک سو چالیس کلومیٹر کی دوری پر مغرب میں بلند و بالا پہاڑیوں اور گھنے جنگلاتی علاقے میں واقع ہے۔
یہ بندر گورکھا میونسپیلٹی میں واقع ایک تالاب میں یکے بعد دیگرے ڈوبے۔ مقامی یونین کونسل کے سربراہ کُول بہادر کنور نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ ایک ڈوبتے بندر کو بچانے کی کوشش میں اترنے والے دوسرے بندر اپنے ساتھیوں کو بچانے کی کوشش میں چھلانگیں مارتے رہے اور تالاب کے گہرے پانی میں ڈوبتے گئے۔
مقامی لوگوں کے مطابق تالاب میں رات بھر کی بارش سے پانی زیادہ بھر گیا تھا اور اس باعث اُس کی گہرائی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بندر عموماً پانی پینے اس تالاب تک آتے تھے لیکن وہ گہرائی کا اندازہ نہیں لگا سکے اور ڈوبتے چلے گئے۔ اس تالاب میں دیہاتیوں کے مال مویشیوں کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
گزشتہ چھ ماہ کے دوران یہ دوسرا واقع ہے کہ بندروں کی اتنی بڑی تعداد پانی کے کسی تالاب میں ڈوب کر مری ہے۔ قبل ازیں گزشتہ برس اگست میں کھٹمنڈو سے چھیاسٹھ کلومیٹر کی دوری پر واقع قصبے سندھو پال چوک کے ایک تالاب میں سولہ بندر ڈوب گئے تھے۔
ایشیائی ممالک میں بندر عموماً جنگلاتی قصبوں میں رہتے ہیں اور دیہاتیوں کے گھروں کے احاطوں اور دوسرے مقامات میں داخل ہو کر خوارک اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ بندر فصلوں کو خراب کرنے کے علاوہ گزرنے والے لوگوں پر حملے بھی کرتے ہیں۔
بندروں پر ریسرچ کرنے والے نیپالی ریسرچر مکیش کمار چالیسی کا کہنا ہے کہ بندر اُن حکومتی جنگلات میں رہنے کو پسند نہیں کرتے جو حکومت نے 'جنگل بڑھاؤ‘ مہم کے تک قائم کر رہی ہے کیونکہ ان میں لگائے جانے والے درخت ان بندروں کو پسند نہیں ہیں۔ چالیسی کے مطابق یہ بندر دیہات کے قریب اس لیے بھی آ گئے ہیں کہ لوگ مسلسل شہروں کی جانب ہجرت کا سلسلہ اپنائے ہوئے ہیں اور علاقوں میں ویرانی کی وجہ سے انہیں کم خوراک کا سامنا ہے۔ اب یہ بندر کم خوراکی کی وجہ سے بچے کچے کم آبادی والی بستیوں کا رخ کیے ہوئے ہیں۔
ع ح ⁄ ع ا (ڈی پی اے)
ساٹھ برس قبل پہلے بندروں کا جوڑا خلا میں بھیجا گیا تھا
اٹھائیس مئی سن 1959 کو دو بندر مس بیکر اور ایبل کو خلا کے لیے روانہ کیا گیا تھا۔ اُن کا پندرہ روز خلائی سفر ایک سنگ میل ہے۔ ان کے علاوہ کئی اور جانور بھی خلا میں بھیجے گئے۔
تصویر: imago/UIG/NASA
خلائی مشن کے لیے جانوروں کا انتخاب
سب سے پہلا بندر گورڈو کو سن انیس اٹھاون میں خلا کے سفر پپہلے خلائی سفر روانہ کیا گیا اور وہ بدقسمتی سے دورانِ سفر مر گیا۔ تصویر میں مس بیکر اور ایبل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں ایک گلہری بندر اور دوسرا ریسس بندر ہے۔ یہ جوڑا خلا میں پندرہ دن تک رہنے کے بعد مئی سن 1959 زندہ لوٹے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خلا میں بھی محفوظ رہے
پہلے خلائی سفر میں ایبل اور مس بیکر نامی بندروں کا جوڑا پندرہ دن محفوظ رہا اور مدار سے زندہ واپس لوٹا۔ اُن پر زیرو کشش ثقل کے تجربات بھی کیے گئے۔ ایبل نامی بندر خلا سے زمین پر پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد مر گیا۔ مس بیکر نامی بندریا نے طویل عمر پائی اور وہ سن 1984 میں مری۔
تصویر: imago/UIG/NASA
خلائی کیپسول میں
مس بیکر اور ایبل جوڑے کی طرح سام نامی بندر (اوپر تصویر میں) پر زیرو کشش ثقل کے تجربات نہیں کیے گئے۔ اُس کی ناسا کے خلائی کیپسول مرکری میں فوکس ریسکیو سسٹم پر رہا۔ اس تجرباتی خلائی پرواز میں سام زندہ رہا۔ سام بھی مس بیکر کی طرح ریسس بندروں کی نسل سے تھی۔
تصویر: Getty Images/Keystone
پہلے چیمپینزی کی خلا کے لیے روانگی
ہام نامی پہلے چیمپینزی کو سن 1961 میں خلائی سفر کے لیے منتخب کیا گیا۔ اُس پر زیرو کشش ثقل کے تجربات بھی کیے گئے۔ چیمپینزی کو خصوصی خلائی لباس پہنایا گیا اور بے وزنی کی حالت کو برداشت کرنے کی تربیت بھی دی گئی تھی۔ ہیم کے خلائی سفر کے بعد زمین کے مدار میں ایلن شیپرڈ نامی خلاباز کو روانہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
خلا میں سب سے پہلے کتا بھیجا گیا تھا
یہ ایک حقیقت ہے کہ بندروں کی خلا میں روانگی سے قبل کتوں کو خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔ کتوں کو خلا میں بھیجنے کے تجربات اُس وقت کے سوویت یونین کے خلائی ادارے نے مکمل کیے۔ سوویت خلائی مشن اسپٹنک ٹُو میں لائیکا نامی ایک مادہ (اوپر تصویر میں) کو خلا میں روانہ کیا گیا تھا۔ خلا میں جانے والا یہ پہلا چار ٹانگوں والا جانور تھا۔ لائیکا خلائی سفر سے زندہ لوٹی لیکن زمین پر پہنچنے کے چند گھنٹوں بعد مر گئی۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
بعض کتے خلائی سفر کے بعد زندہ رہے
سابقہ سوویت یونین کے مشن میں لائیکا تو خلائی سفر کے بعد مر گئی اور پھر سن 1960 میں خلائی جہاز کے اندر مزید بہتر لا کر مزید دو کتوں کو روانہ کیا گیا۔ اسٹریلکا اور بیلکا نامی کتے خلائی اس سفر سے زند بچ کر لوٹے۔ اسٹریلکا زندہ بچ جانے والی ایک مادہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/E. Biyatov
کتوں سے قبل بھی کچھ اور بھیجا گیا
بظاہر کتے پہلے جانور تھے، جنہوں نے خلائی سفر کیا لیکن ان سے دس برس قبل سن 1947 میں ایک خلائی جہاز پر پھل مکھیوں کو روانہ کیا گیا تھا۔ یہ پھل مکھیاؒں خلا میں محفوظ رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جانوروں کا تحفظ سائنسی تحقیق سے بالا ہے
خلا کے لیے بندروں اور کتوں کو روانہ کرنے کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ لیکن ناسا جانوروں کے بغیر اپنی خلائی تحقیق مکمل نہیں کرتا۔ آج بھی چھوٹے مگر باہمت جانوروں پر تحقیقی عمل جاری ہے۔ سن 2007 میں یورپی خلائی ایجنسی نے کچھ سست رفتا جانور خلا میں بھیجے تھے۔ یہ جانور کاسمک شعاؤں اور کھلے خلا میں کچھ وقت گزارنے کے بعد بھی زندہ رہے تھے۔