میانمار کے فوجیوں نے روہنگیا مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک بچی کے گھر میں گھس کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی تھی۔ تب اس کی عمر صرف تیرہ برس ہی تھی۔
اشتہار
بنگلہ دیش میں قائم مہاجر کیمپوں میں ایسی متعدد روہنگیا لڑکیاں اور خواتین ہیں، جنہیں میانمار کے فوجیوں کی طرف سے مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ حاملہ ہو گئی تھیں۔
اب دس ماہ بعد کئی ایسی ہی روہنگیا لڑکیاں بچوں کو جنم دی چکی ہیں۔ تیرہ سالہ یہ مہاجر بچی بھی انہی میں شامل ہے، جو ریپ کے بعد بنگلہ دیش فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
خبر رساں ادارے اے پی نے اس بچی کی شناخت اس کے نام کے پہلے حرف ’اے‘ سے کی ہے۔ اس لڑکی نے بتایا کہ حمل اس کے لیے ایک ایسی جیل بن گئی تھی، جس سے وہ چھٹکارہ چاہتی تھی۔ جنسی زیادتی کے اس عمل نے اس لڑکی سے اس کی معصومیت چھین لی۔ ساتھ ہی ایک بودھ فوجی کا بچہ گود میں اٹھانے کا خیال اس کے لیے ایک نئے کرب کا باعث تھا۔
تقریبا دس ماہ قبل میانمار کی فوج نے راکھین میں روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تھا۔ اس دوران روہنگیا لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے بے شمار واقعات بھی رپورٹ ہوئے تھے۔ انہی لرزہ خیز واقعات کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی روہنگیا خواتین معاشرتی اور نفسیاتی سطح پر مسلسل ایک دباؤ میں ہیں۔
اے پی نے بتایا کہ حاملہ ہونے والی ایسی متعدد خواتین نے کیمپوں میں ملنے والی سستی مانع حمل کی گولیاں کھا کر اپنا بوجھ ہلکا کیا اور درجنوں اس کشمکش میں مبتلا رہیں کہ بودھ فوجیوں کے ان بچوں کا کیا کیا جائے۔
اے کی والدہ نے بھی چاہا کہ وہ اپنی بیٹی کا حمل گروا دے لیکن جب ڈاکٹر نے اے کو ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس بتائے تو وہ ڈر گئی اور اس نے بچے کو جنم دینے کا ارادہ کر لیا۔
تاہم وہ گھر میں قید ہو گئی اور اپنے حمل کو دوسرے لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ عرصہ اس کے لیے انتہائی تکلیف دہ رہا۔ جون میں اس نے ایک لڑکی کو جنم دیا اور اس کے والدین نے اس نومولود کو فوری طور پر ایک ریلیف کیمپ کے حوالے کر دیا۔
اب اس ننھی ماں کے لیے ایک نئی پریشانی یہ ہے کہ اس کی بیٹی کا کیا بنا یا اس کا خیال کون رکھے گا۔ اے کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی اپنی بچی کو یاد کرتی ہے لیکن اسے اپنے پاس نہ رکھنے کا فیصلہ بھی درست تھا کیونکہ ’یہی ایک واحد راستہ تھا‘۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘