تیر کر ہنگری جانے کی کوشش: مہاجر کی موت کی تفتیش کا مطالبہ
شمشیر حیدر5 جون 2016
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے ہنگری کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے اس بائیس سالہ شامی مہاجر کی موت کی چھان بین کریں جو تیر کر سربیا سے ہنگری پہنچنے کی کوشش میں تھا۔
اشتہار
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی جانب سے یہ بیان ایک بائیس سالہ شامی مہاجر کے دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو جانے کے واقعے کے بعد سامنے آیا ہے۔ یہ نوجوان مہاجر سربیا سے ہنگری میں داخل ہونے کی کوشش میں دونوں ممالک کی سرحد پر واقع دریائے ٹِیسزا میں ڈوب گیا تھا۔
ادارہ برائے مہاجرین نے ہلاک ہونے والے مہاجر کے ہمراہ موجود دیگر تارکین وطن کے کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ہنگری کے حکام تارکین وطن سے ناروا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اور پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔
ہنگری کی پولیس نے گزشتہ بدھ کے روز ایک عراقی مہاجر خاندان کو دریا میں ڈوبنے سے بچا لیا تھا۔ ان مہاجرین کے ہمراہ تین بچے بھی تھے۔ ملکی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے سربیا کے حکام کو دریا میں گم ہونے والے مہاجر کے بارے میں اطلاع دے دی تھی۔ اس شامی مہاجر کی لاش جمعہ تین جون کو ملی تھی۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق پناہ گزینوں کے بارے میں ہنگری کی اختیار کردہ پالیسیوں اور سربیا اور کروشیا سے متصل ملکی سرحدوں کو خار دار تاریں لگا کر بند کر دیے جانے سے ’لوگ انسانوں کے اسمگلروں کے رحم و کرم پر ہی رہ گئے ہیں، جس کے عام طور پر بہت بھیانک نتائج نکل رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔