1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیسری بڑی معیشت: ہر چھٹا شہری خط غربت سے نیچے

11 اگست 2010

جاپان جہاں کبھی ہر شہری کے لئے تمام تر ضروریات زندگی کی آسان دستیابی ایک معمول تھا، آج دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح جاپان میں بھی کئی ملین افراد زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے شدید تگ ودو میں مصروف ہیں۔

تصویر: AP

جاپان میں تقریباً ہر چھٹا فرد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ یعنی وہ جاپان کی فی کس آمدنی کے نصف سے بھی کم میں گزراوقات کررہا ہے، جوکہ چار ارکان پر مشتمل خاندان کے لئے 1830 ڈالرز بنتی ہے۔

جاپانی معیشت قریب دو دہائی قبل زوال کی طرف بڑھنے لگی اور آج وہاں کے شہریوں کو نہ صرف بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سامنا ہے بلکہ سڑکوں پر زندگی گزارتے بے گھر افراد کا تعداد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

حالیہ معاشی بحران سے جو کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے اب تک کا خطرناک ترین بحران مانا جاتا ہے، سب سے زیادہ نقصان بزرگوں، اکیلی ماؤں اور اس بحران کی وجہ سے بےروزگار ہونے والے افراد کو ہوا ہے۔

سال 2008ء اور 2009ء کے دوران ہزاروں جزوقتی ملازمین نوکریوں سے برطرف کیے گئے۔تصویر: AP

اس اقتصادی بحران کے اثرات اب آہستہ آہستہ کم ہورہے ہیں، لیکن اب نوکریوں پر جن نوجوانوں کو رکھا جارہا ہے انہیں نوکری کی اس طرح کی کوئی گارنٹی نہیں ہے جو ان کے والدین کو 1960ء کی دہائی سے شروع ہونے والی "معجزاتی" ترقی کے دور میں حاصل تھی۔

39 سال سے کم عمر افراد کے لیے زیادہ تر جُز وقتی ملازمت زندگی گزرنے کا واحد حل ہے۔ ان ملازمین کو نہ صرف باقاعدہ ملازمین کی نسبت کم تنخوہ ملتی ہے، بلکہ معاشی اتار چڑھاؤ کا سب سے زیادہ نقصان بھی ایسے ہی افراد کو ہوتا ہے۔ سال 2008ء اور 2009ء کے دوران ہزاروں جزوقتی ملازمین نوکریوں سے برطرف کیے جاچکے ہیں۔

ٹوکیو میں غربت کے حل کے لیے منعقد ایک میٹنگ میں ایک ادھیڑ عمر آدمی کا کہنا تھا کہ اس نے 20 سال ایک بڑی کمپنی میں جزوقتی ملازم کی حثیت سے کام کیا مگر 2009ء میں اس کو نوکری سے برطرف کردیا گیا۔ اسکا مزید کہنا تھا کہ وہ کمپنی کی جانب سے دیے گئے ہاسٹل میں رہ رہا تھا، لہذا ملازمت سے برخواست کئے جانے کے ایک مہینے بعد اسکو وہاں سے بھی نکال دیا گیا اور اب اس کو سڑکوں پر رہنا اور سونا پڑ رہا ہے۔ مزید یہ کہ اسے نئی نوکری تلاش میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔

نیشنل یونیورسٹی برائے آبادی اور معاشرتی سکیورٹی کے ریسرچر ''Aya Abe کے مطابق جاپان میں خاندانی نظام کے خاتمے کی وجہ سے بھی بہت سے افراد غربت کا مقابلہ نہں کرپاتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ایک گھر میں تین نسلیں رہتی تھیں۔ چونکہ خرچہ آپس میں بانٹ لیا جاتا تھا اس لئے ایک آدمی کی بے روزگاری کا زیادہ اثر نہں ہوتا تھا۔

'Aya Abe' کا مزید کہنا ہے کہ آجکل کی بہت سی اکیلی مائیں زندگی گزارنے کے لیے دو دو نوکریاں کررہی ہیں اور ان دو نوکریوں کے درمیان میں بچوں کے لیے کھانا بناتی ہیں اور پھر کام پر نکل جاتی ہیں ۔ان حالات میں جہاں جاپان میں پیدائش کی شرح کم اور عمریں لمبی ہیں غربت کا سب سے زیادہ نقصان بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد کو ہوتا ہے۔

نئے جاپانی وزیرِعظم ناؤتوکن (Naoto Kan) نے اپنی پہلے سرکاری خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ان عوامل کا خاتمہ کریں گے جو عوام کی لیے پریشانی اور عدم اطمینان کا باعث بنتے ہیں۔تصویر: AP

محقق 'Aya Abe' نے کہا کہ لوگوں کی زندگیوں میں خاندان اور باقاعدہ کمپنی کا کردارختم ہوگیا ہے مگر حکومت نے اس خلا کو پُر کرنے میں کوئی کردار ادا نہں کیا۔ پچھلے بیس سالوں میں ٹیکس اور سکیورٹی کی مد میں عوام سے اتنے پیسے لیے گئے ہیں کی اس نے غریب لوگوں کی زندگی مزید مشکل بنادی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ جاپان میں بھیک مانگنے کو معاشرتی برائی سمجھا جاتا ہے اور جرائم کی شرح بھی کم ہے تاہم وہاں ایسی غربت جو بظاہر نظر نہیں آتی بڑھ رہی ہے اور لوگ ایک وقت کا کھانا چھوڑ رہے ہیں۔

بہت سے نقادوں کے مطابق یہ ان حالات کی ذمہ داری سابق وزیرِعظم جونیشیروکوئیزومی (Junichiro Koizumi) کی طرف سے ان ناقص اقدامات پر عائد ہوتی ہے جو انہوں نے تجارتی منڈیوں کی بہتری کے لئے کئے۔

سال 2008-09 کی سردیوں میں مکاٹو یوسا نے ٹوکیو کے حکومتی مرکز کے قریب بےروزگار لوگوں کے لیے خیموں کا ایک گاؤں آباد کیا ۔ اس واقع نے کئی لوگوں کو حیران کردیا اور نہ صرف بزرگوں اور معزور لوگوں کے لیے بلکہ ہر شہری کی طرف سرکاری رویے میں تبدیلی آئی۔

گزشتہ سال اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت نےمکاٹو یوسا کو ایک مشیر کی حثیت سے حکومت کا حصہ بنایا اور انہوں نے بے روزگار لوگوں ک لیے 'one stop service' کا آغاز کیا۔

جاپان میں بڑھتی ہوئی غربت نے خودکشی کی شرح میں اضافہ، شرح پیدائش میں کمی، بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ اور مزید معاشرتی برائیوں میں اضافے کے بعد میڈیا کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ روزنامہ اساشی شمبون کے مطابق 'یہ حالات جاپان کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔'

نئے جاپانی وزیرِعظم ناؤتوکن (Naoto Kan) نے اپنی پہلے سرکاری خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت ان تمام عوامل کا خاتمہ کرے گی جو عوام کی لیے پریشانی اور عدم اطمینان کا باعث بنتے ہیں۔

رپورٹ : سمن جعفری

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں