1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیس بڑے یورپی بینکوں کے مزید اسّی ہزار ملازمین برطرف

مقبول ملک14 اپریل 2014

یورپ کے 30 سب سے بڑے بینکوں نے اقتصادی بحران کے بعد کے دور میں اپنی مالی حالت بہتر بنانے کی کوششیں کرتے ہوئے گزشتہ برس بھی اپنے مزید 3.5 فیصد ملازمین کو برطرف کر دیا۔ یہ تعداد 80 ہزار بنتی ہے۔

تصویر: ap

یورپ کا مالیاتی مرکز کہلانے والے برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یورپ کو ابھی تک گزشتہ اقتصادی بحران کے اثرات کا سامنا ہے اور یورپی معیشت میں بحالی قدرے کم رفتاری سے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ اس کے باوجود صرف 2013ء میں 30 بڑے یورپی بینکوں کے ملازمین کی تعداد میں مزید 3.5 فیصد کی کمی جہاں اس شعبے کے کارکنوں کو درپیش مشکل حالات کی نشاندہی کرتی ہے، وہیں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ یورپی بینکنگ انڈسٹری میں ملازمتوں کا گزشتہ بحران سے پہلے تک کی سطح پر واپس آ جانا فی الحال ممکن نہیں ہے۔

2008ء میں شروع ہونے والا عالمی اقتصادی بحران امریکی بینک لیہمن برادرز کے دیوالیہ ہو جانے سے شروع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے عالمی سطح پر بینکنگ کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد میں کافی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان مالیاتی اداروں کو آمدنی میں کمی کی وجہ سے سخت فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں، ان کے خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہ اپنے اپنے ملکوں میں ریگولیٹرز کو اس بات کا قائل کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں کہ وہ اب اتنے بڑے نہیں رہے کہ ناکام ہو جائیں۔

تصویر: dapd

یورپی بینک اس براعظم کے سب سے بڑے آجرین میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے حوالے سے ملنے والی بری خبروں کا سلسلہ گزشتہ برس تھمنا شروع ہو گیا تھا۔ یورپی یونین کے یورو زون کے مستقبل کے بارے میں خدشات کچھ کم ہوئے تو سٹاک مارکیٹوں میں 600 یورپی بینکوں کے انڈیکس میں 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا، جو کاروباری بہتری کے لحاظ سے دیگر اقتصادی شعبوں میں بہتری کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا۔

لیکن بینکاری کی صنعت میں مزید بہتری کے ان اشاروں کے باوجود یورپی منڈیوں میں اپنی حیثیت کے لحاظ سے 30 سب سے بڑے بینکوں نے صرف ایک سال کے دوران اپنے عملے میں مزید 80 ہزار کی کمی کر دی۔ ان بینکوں نے اپنے ہاں روزگار کے یہ مواقع ختم کیے جانے کا خود کوئی اعلان نہیں کیا بلکہ یہ اعداد و شمار خبر رساں ادارے روئٹرز نے ان بینکوں کی گزشتہ سال کے بارے میں جاری کردہ رپورٹوں کے تجزیے سے خود تیار کیے۔

یہ پیش رفت اسپین جیسے یورپی ملکوں کے لیے اس وجہ سے غلط ہے کہ وہاں اگر بے روزگاری کی قومی شرح 26 فیصد تک پہنچ گئی ہے تو اس کا ایک سبب ملکی بینکوں کے ہزارہا ملازمین کا ان کی ملازمتوں سے برطرف کیا جانا بھی ہے۔

تصویر: REUTERS

دوسری طرف ان بینکوں نے اپنے عملے کی تعداد میں کمی اور اثاثوں کی فروخت کے ساتھ یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ مستقبل میں اگر دوبارہ کوئی اقتصادی یا مالیاتی بحران پیدا ہوا تو ان بینکوں کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

رابرٹ والٹرز نامی ریکروٹمنٹ فرم کے یورپ اور جنوبی امریکا کے لیے چیف ایگزیکٹو اَینٹوئن مَورگَو کہتے ہیں کہ یورپی بینکوں میں روزگار کی صورت حال دوبارہ کبھی ویسی نہیں ہو گی، جیسی وہ 2008ء کے بحران سے پہلے تھی۔ ان کے بقول یورپ کے 30 سب سے بڑے بینکوں کی فہرست میں شروع کے 25 بینکوں کے ملازمین کی موجودہ مجموعی تعداد قریب 1.7 ملین یا 17 لاکھ بنتی ہے۔ مالیاتی بحران سے پہلے یہی تعداد ساڑھے انیس لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔

2013ء میں جن یورپی بینکوں نے اپنے عملے کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی کی، ان میں اسپین کا Bankia، اٹلی کا یونی کریڈٹ، بیلجیم کا KBC اور آئرلینڈ کا بینک آف آئرلینڈ شامل تھے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں