تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں: پاکستانی معیشت کے لیے خطرہ
عبدالستار، اسلام آباد
16 ستمبر 2019
سعودی عرب میں تیل کی تنصیب پر حملے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے معاشی و مالیاتی امور کے پاکستانی ماہرین تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اضافہ پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
اشتہار
پاکستان کو معاشی طور پر کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، جس میں مالیاتی خسارہ، ٹیکسوں کے ہدف کو حاصل کرنے میں نا کامی، برآمدات میں کمی، سرمایہ کاری میں جمود، معاشی نمو میں نمایاں کمی اور بڑھتے ہوئے امپورٹ بل شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، پیداوار میں کمی اور اخراجات میں اضافے کا بھی سامنا ہے۔
واضح رہے کہ عالمی منڈی میں پہلے تیل کی قیمت انیس اعشاریہ پانچ فیصد بڑھی، جو بعد میں آٹھ اعشاریہ سات پر آکر ٹھہری لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ مشکلات میں گھری پاکستانی معیشت کے لیے ذرا سا بھی اضافہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
اس بڑھتی ہوئی قیمت کے معیشت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مالیاتی امور کے ماہر اور سابق وفاقی سیکرِیڑی خزانہ وقار مسعود خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر یہی صورت حال مہینہ یا دو مہینے رہی تو حکومت نے جو امپورٹ بل میں تھوڑی سی کمی کی تھی، وہ دوبارہ بڑھ جائے گی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں جو بہتری ہوئی ہے وہ بھی اب خطرے میں پڑ جائے گی۔ جلد معاشی ریکوری کی سارے کوششیں متاثر ہوں گی اور اس کی وجہ سے گیس اور ایل این جی کی قیمتیں بھی متاثر ہوں گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ عوام کے لیے مشکل یہ ہوگی کہ انہیں مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا جب کہ صنعت کاروں کے لیے پیداواری لاگت بڑھ جائے گی۔
مشرق وسطٰی میں کشیدگی کے بعد تیل کی قیمتیں ایک ایسے وقت میں بڑھ رہی ہیں جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد پر کشیدگی چل رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے پاس بمشکل بارہ سے پندرہ دن کے تیل کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جب کہ ملک میں گیس اور ایل این جی کے ذخیرہ کرنے کے لیےمناسب ذرائع نہیں ہیں۔ کئی معاشی ماہرین کے خیال میں اگر ایسے موقع پر سرحد پر کشیدگی بڑھتی ہے یا کوئی محدود یا روایتی جنگ ہوتی ہے تو یہ ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن ہو گی۔
معروف معیشت دان ڈاکڑ عذرا طلعت سعید کے خیال میں فوجوں کو تیل اور توانائی کے دوسرے ذرائع کے بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے موقع پر ریاست کی خارجہ پالیسی بھی متاثر ہو سکتی ہے،''میرے خیال میں اگر آپ کی طلب بہت زیادہ بڑھتی ہے تو آپ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ آپ ریاض کی طرف دیکھیں۔ لیکن ایسی صورت میں اگر چین ایران کا ساتھ دیتا ہے اور ہم پر بھی دباؤ ڈالتا ہے کہ ہم تہران کے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمارے لیے مشکل بہت ہوجائے گی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران سے بھی تیل لے سکتے ہیں،''لیکن ہماری ریاست اس معاملے میں بھی شیعہ سنی سوال لے آئے گی اور میرا خیال ہے کہ بہت ساری مذہبی جماعتیں بھی اسی زوایے سے دیکھیں گی۔ بہرحال اگر ہم نے دانشمندی سے کام نہیں لیا تو ہماری معاشی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے، جس کا اثر عام آدمی پر بہت پڑے گا۔‘‘
تیل کی قیمتوں میں ڈرامائی کمی کے اثرات
تقریباً روزانہ ہی تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ایک برس سے زائد عرصے سے کمزور عالمی معیشت اور تیل کی زیادہ پیداوار کے باعث بے یقینی کی سی صورتحال ہے، جس کی وجہ سے کچھ ممالک بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Hong
خمار اتر رہا ہے
کسی کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے والا ناروے بھی تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے متاثر ہو جائے گا۔ بحیرہٴ شمال کی تہہ میں موجود خام تیل نے ناروے کو دنیا کے امیر ترین ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا تاہم تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے اوسلو حکومت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑ رہی ہے۔ اب یہ ملک تیل اور گیس کی فروخت پر بھروسا کرنے کے ساتھ ساتھ ماہی گیری پر بھی انحصار بڑھائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Hagen
دوہرا نقصان
صرف یورپی یونین کی اقتصادیاں پابندیاں ہی نہیں بلکہ تیل کی کم قیمتیں بھی روس کے غصے میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ 2015ء کے دوران روسی اقتصادی ترقی میں چار فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ تنخواہوں میں کمی اور ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی روبل کی قدر میں کمی کی صورت میں نکلا۔ اقتصادیات سے متعلق ایک تنظیم ’بلومبرگ‘ کے مطابق اس سال بھی روس کو کساد بازاری کا سامنا رہے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Druzhinin
مستقبل داؤ پر
نائجیریا افریقہ میں تیل کا سب سے بڑا پیداواری ملک ہے۔ نئے صدر محمدو بخاری نے انتخابات سے قبل ریاستی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا یہ انتخابی وعدہ تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی نذر ہو گیا۔ عالمی بینک کے مطابق اس ملک کو ایک تہائی آمدنی تیل کی فروخت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے کے بہت سے منصوبے تعّطل کا شکار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نئی حقیقت
صرف نائجیریا ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی ممالک اپنے مالیاتی معاملات کا حساب کتاب تیل کی اونچی قیمتوں سے کرتے ہیں۔ تاہم کم قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے ریاستی بجٹوں میں ایک خلاء سا پیدا ہو گیا ہے۔ 2014ء کے وسط سے تیل کی قیمتیں تقریباً 75 فیصد کم ہو چکی ہیں۔ ماہرین مستقبل قریب میں اس صورتحال کو بہتر ہوتا ہوا بھی نہیں دیکھ رہے۔
پابندیوں کے بعد
برآمدات پر پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد ایران روزانہ تقریباً ڈیڑھ ملین بیرل تیل عالمی منڈی کو مہیا کرے گا۔ اس طرح یہ ملک خود کو بھی نقصان پہنچائے گا کیونکہ عالمی منڈی میں تیل کی مقدار بڑھنے سے اس کی قیمتوں میں مزید کمی واقع ہو گی۔ تاہم تہران حکومت اپنے دشمن سعودی عرب کو ان کم قیمتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh
اپنے ہی دام میں
سعودی عرب تیل کی پیداوار کم کرنے کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس طرح سعودی عرب تیل نکالنے کے شعبے میں امریکا اور اپنے حریف ملک ایران کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ تاہم اب تیل برآمد کرنے والا دنیا کا یہ سب سے بڑا ملک اپنے ہی دام میں پھنستا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر خسارے سے خبردار کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Grimm
آخر کب تک؟
قطر، عمان اور متحدہ عرب امارات کی صورتحال بھی سعودی عرب سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ مالیاتی ادارے جے پی مورگن کے اندازوں کے مطابق چھ خلیجی ریاستوں کے بجٹ کے خسارے کو اگر ایک ساتھ ملایا جائے تو یہ 260 ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: M. Naamani//AFP/Getty Images
انتقال اقتدار سے قبل
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر لاطینی امریکی ملک وینزویلا کے پاس ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ملک کی سوشلسٹ حکومت تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے اپنے سماجی منصوبوں کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتی رہی۔ تاہم اب صدر نکولس مادورو نے اقتصادی شعبے میں ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ انہیں ملک میں سیاسی میدان میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters
کھدائی، کھدائی اور کھدائی اور اب ؟
تیل تلاش کرنے کی جدید ٹیکنالوجی نے امریکا کو تیل کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بنا دیا ہے۔ تاہم ان کم قیمتوں کی وجہ سے انتظامیہ بہت سے آئل ٹرمینلز کو بند کرنے پر بھی مجبور ہو چکی ہے۔ امریکا توانائی کے استعمال کے حوالے سے بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کی انتہائی کم قیمتوں سے گاڑی چلانے والے افراد البتہ آج کل بے حد خوش ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس صورت حال نے حکومت کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ پارٹی کے سینیئر رہنما ظفر علی شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میرے خیال میں ہمیں فوری طور پر ایران سے تیل و گیس لینے کی کوشش کرنا چاہیے اور اگر تہران پر لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے کوئی مشکل ہے تو ہمیں بھارت کی طرح امریکا سے مطالبہ کرنے چاہیے کہ وہ ہمیں ایران سے تیل و گیس منگوانے کے لیے استثنی دے۔ ورنہ تو ہماری معاشی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی جس کے خطرناک سیاسی نتائج ہوں گے۔‘‘
کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ تیل کی درآمد کی وجہ سے پاکستان کا امپورٹ بل پہلے ہی بہت بڑھا ہوا تھا لیکن نون لیگ کی حکومت نے ایل این جی کا معاہدہ کر کے امپورٹ بل کے حجم کو مذید بڑھا دیا ہے۔ تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر فیصل بلوچ کے خیال میں یہ تنقید مناسب نہیں، ’’آپ کو معیشت چلانے کے لیے مختلف ذرائع چاہیے ہوتے ہیں۔ آپ صرف تیل پر انحصار نہیں کر سکتے۔ گیس، کوئلہ یا انرجی کے دوسرے ذرائع رکھنے پڑتے ہیں۔ اس کے بغیر معیشت کو چلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس وقت تو یہ سارے ذرائع ہی مہنگے ہوں گے کیونکہ ہم تقریباً یہ ساری چیزیں ہی درآمد کر رہے ہیں۔‘‘