تین برس کے وقفے کے بعد عرب لیگ کے رہنماؤں کا اجلاس
2 نومبر 2022
بائیس رکنی عرب لیگ کا سربراہی اجلاس اس برس الجزائر میں شروع ہوا۔ گرچہ عرب لیگ کی فلسطینی کاز کی حمایت جاری ہے، تاہم بہت سے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی استوار کر لیے ہیں۔
اشتہار
عرب لیگ کا31واں سربراہی اجلاس پیر کے روز الجزائر میں شروع ہوا، جس میں عرب ممالک کے سربراہان نے تین برس میں پہلی بار ملاقات کی۔ 22 رکنی عرب لیگ نے کورونا کی وبا سے پہلے 2019 میں اپنی آخری کانفرنس کی تھی۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت ہوئی، جب مشرق وسطیٰ اور افریقہ کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، خوراک اور توانائی کی قلت، خشک سالی اور زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات جیسے شدید قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔
الجزائر کے صدر عبدالمجید تبون نے کہا، ''علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بحرانوں کا غلبہ ہے، خاص طور پر عرب دنیا میں، جس نے اپنی جدید تاریخ میں اتنا مشکل دور پہلے کبھی نہیں دیکھا جس سے اس وقت وہ گزر رہا ہے۔''
الجزائر کے صدر نے اپنی تقریر میں یوکرین پر روسی حملے کا ذکر نہیں کیا، تاہم اتنا ضرور کہا کہ ''غیر معمولی عالمی حالات صف بندیوں کو جنم دے رہے ہیں... جو ہمارے غذائی تحفظ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔''
یوکرین کے خلاف روس کی جنگ نے عرب لیگ کے کئی رکن ممالک کو بھی متاثر کیا ہے، کیونکہ کئی عرب ممالک یوکرین اور روسی گندم کی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ تاہم اس جنگ کے حوالے سے بیشتر عرب دنیا کا موقف غیر جانبدار رہا ہے۔
تیونس کے صدر قیس سعید نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے، ''خوراک اور توانائی کے تحفظ کے بحران میں مزید اضافہ ہوا ہے، جو پہلے سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات جیسے مسائل کی وجہ سے متاثر تھی۔''
اشتہار
فلسطینی کاز کو اب بھی مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل
الجزائر کے صدر عبدالمجید تبون نے یہ بھی کہا کہ ''ہمارا مرکزی اور بنیادی مقصد فلسطینی کاز ہے۔''
تاریخی طور پر عرب لیگ نے اسرائیل کے ساتھ تنازعے میں فلسطینی حکام کی حمایت کی ہے، تاہم اس طرح کا بیان اب لیگ میں کشیدگی کا باعث بھی بن سکتا ہے، کیونکہ حالیہ برسوں میں لیگ کے کئی ارکان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لیے ہیں۔
سامعین میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش بھی شامل تھے، جن کو مخاطب کرتے ہوئے تبون نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تاکہ فلسطین کو ایک مکمل ریاست کا درجہ دیا جا سکے۔
عرب لیگ کا یہ دو روزہ اجلاس اسرائیل میں عام انتخابات کے موقع پر ہو رہا ہے، جس میں ایگزٹ پول کے مطابق، سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دوبارہ اقتدار میں واپسی کے امکانات ہیں۔
شاہ کانفرنس سے غائب رہے
مراکش کے شاہ محمد ششم اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس کانفرنس سے غیر حاضر رہنے والی قابل ذکر شخصیات ہیں۔ انہوں نے خود کانفرنس میں شرکت کرنے کے بجائے اپنے نمائندوں کو بھیجا تھا۔
الجزائر میں ہونے والے اس اجلاس میں شامی حکومت کی بھی نمائندگی نہیں تھی۔ سن 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد ہی عرب لیگ نے بشار الاسد کی حکومت کو معطل کر دیا تھا اور تب سے شام کو لیگ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
الجزائر اور بعض دیگر ارکان اس میں شام کی دوبارہ شمولیت کے لابنگ کر رہے تھے، تاہم خاص طور پر خلیجی ریاستوں کی جانب سے اس کی سخت مخالفت کی گئی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
اسرائیلی اماراتی معاہدہ اور مسلم ممالک کا ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق متحدہ عرب امارات کی طرح کئی دیگر عرب اور مسلم ممالک اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے جلد طے پا سکتے ہیں۔ موجودہ معاہدے پر مسلم ممالک کی جانب سے کیا رد عمل سامنے آیا، جانیے اس پکچر گیلری میں۔
’تاریخی امن معاہدہ‘ اور فلسطینیوں کا ردِ عمل
فلسطینی حکام اور حماس کی جانب سے اس معاہدے کو مسترد کیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس اور حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ نے آپسی اختلافات پس پشت ڈال کر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ فلسطین نے متحدہ عرب امارات سے اپنا سفیر بھی فوری طور پر واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے مطابق جب خطے کے اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر لیں گے تو فلسطینیوں کو بھی آخرکار مذاکرات کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
متحدہ عرب امارات کا اپنے فیصلے کا دفاع
یو اے ای کے مطابق اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا ان کا فیصلہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات بڑھائے گا اور یہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں ’درکار ضروری حقیقت پسندی‘ لاتا ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ انور قرقاش کے مطابق شیخ محمد بن زیاد کے جرات مندانہ فیصلے سے فلسطینی زمین کا اسرائیل میں انضمام موخر ہوا جس سے اسرائیل اور فلسطین کو دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔
تصویر: Reuters/M. Ngan
ترکی کا امارات سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر غور
ترکی نے اماراتی فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ایردوآن نے یہ تک کہہ دیا کہ انقرہ اور ابوظہبی کے مابین سفارتی تعلقات ختم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ ایسی ڈیل کرنے پر تاریخ یو اے ای کے ’منافقانہ رویے‘ کو معاف نہیں کرے گی۔ ترکی کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں تاہم حالیہ برسوں کے دوران دونوں ممالک کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔
خطے میں امریکا کے اہم ترین اتحادی ملک سعودی عرب نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ اس خاموشی کی بظاہر وجہ موجودہ صورت حال کے سیاسی پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔ بااثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اماراتی رہنما محمد بن زاید النہیان اور امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca
امن معاہدہ ’احمقانہ حکمت عملی‘ ہے، ایران
ایران نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو ’شرمناک اور خطرناک‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اس معاہدے کو متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کی احمقانہ حکمت عملی قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس سے خطے میں مزاحمت کا محور کمزور نہیں ہو گا بلکہ اسے تقویت ملے گی۔ خطے میں ایرانی اثر و رسوخ سے لاحق ممکنہ خطرات بھی خلیجی ممالک اور اسرائیل کی قربت کا ایک اہم سبب ہیں۔
عمان نے متحدہ عرب امارات کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی نے عمانی وزارت خارجہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ سلطنت عمان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اماراتی فیصلے کی حمایت کرتی ہے۔
تصویر: Israel Prime Ministry Office
بحرین نے بھی خوش آمدید کہا
خلیجی ریاستوں میں سب سے پہلے بحرین نے کھل کر اماراتی فیصلے کی حمایت کی۔ بحرین کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ بحرین خود بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کا حامی رہا ہے اور گزشتہ برس صدر ٹرمپ کے اسرائیل اور فلسطین سے متعلق منصوبے کی فنڈنگ کے لیے کانفرنس کی میزبانی بھی بحرین نے ہی کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Saudi Press Agency
اردن کی ’محتاط حمایت‘
اسرائیل کے پڑوسی ملک اردن کی جانب سے نہ اس معاہدے پر تنقید کی گئی اور نہ ہی بہت زیادہ جوش و خروش دکھایا گیا۔ ملکی وزیر خارجہ ایمن الصفدی کا کہنا ہے کہ امن معاہدے کی افادیت کا انحصار اسرائیلی اقدامات پر ہے۔ اردن نے سن 1994 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters//Royal Palace/Y. Allan
مصری صدر کی ’معاہدے کے معماروں کو مبارک باد‘
مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی نے ٹوئیٹ کیا، ’’ اس سے مشرق وسطی میں امن لانے میں مدد ملے گی۔ میں نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے انضمام کو روکنے کے بارے میں امریکا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ بیان کو دلچسپی اور تحسین کے ساتھ پڑھا۔ میں اپنے خطے کی خوشحالی اور استحکام کے لیے اس معاہدے کے معماروں کی کاوشوں کی تعریف کرتا ہوں۔“ مصر نے اسرائیل کے ساتھ سن 1979 میں امن معاہدہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Watson
پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک خاموش
پاکستان کی طرف سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربراہ اگست کے مہینے کے دوران انڈونیشیا کے پاس ہے لیکن اس ملک نے بھی کوئی بیان نہیں دیا۔ بنگلہ دیش، افغانستان، کویت اور دیگر کئی مسلم اکثریتی ممالک پہلے جوبیس گھنٹوں میں خاموش دکھائی دیے۔