1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین بچیوں میں سے ایک اسکول کا منہ کبھی نہیں دیکھتی: یونیسیف

20 جنوری 2020

بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم اقو ام متحدہ کے ادارہ یونیسیف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں غریب کنبوں کی تین بچیوں میں سے ایک بچی کبھی بھی اسکول کا منہ نہیں دیکھ پاتی ہے۔

Pakistan Burka Avenger
تصویر: picture alliance/AP Photo

ڈاووس میں ورلڈ اکنامک فورم کی میٹنگ میں عالمی رہنماوں کی شرکت کی تیاریوں کے درمیان یونیسیف نے ایجوکیشن ورلڈ فورم میں اتوار کے روز اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت، صنفی امتیاز، معذوری، نسلی بنیاد، ذریعہ تعلیم، گھر سے اسکول کی دوری اور خراب انفراسٹرکچرغریب خاندانوں کے بچوں کو معیاری تعلیم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی روکاٹیں ہیں۔

”تعلیم کے بحران کا حل" کے عنوان سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب بچوں کی تعلیم سے محرومی تعلیم کے عالمی بحران کا ایک اہم سبب ہے۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہنریٹا فور نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا، ”دنیا میں جس ملک میں بھی غریب بچے تعلیم حاصل کرنے میں ناکام ہیں، وہاں وہ بچے نہیں بلکہ وہ ممالک ناکام ہو رہے ہیں۔"  ان کا کہنا تھا، ”جب تک تعلیم پر سرکاری خرچ غیر متناسب رہے گا اور امیر گھرانوں کے بچوں پر زیادہ خرچ کیا جاتا رہے گا، اس وقت تک غریبوں کے لیے غربت سے باہر نکلنے، آج کی دنیا میں مسابقت اور کامیابی کے لیے ضروری ہنر سیکھنے اور اپنے ملکوں کی معیشتوں کے فروغ میں اپنا رول ادا کرنے کی امید بہت کم ہے۔"

ڈراپ آوٹ کی سب سے زیادہ شرح

یونیسیف نے 42 ملکوں کے اعدادوشمار کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا، ”بیس فیصد سب سے غریب کنبوں کے بچوں کی تعلیم پر سرکاری طور پر جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے، اس کے مقابلے بیس فیصد امیر ترین گھروں کے بچوں کی تعلیم پر دو گنا خرچ کیا جاتا ہے۔"

تعلیم پر سرکاری سطح پر خرچ میں یہ تفریق سب سے زیادہ دس افریقی ملکوں میں دیکھنے کو ملی، جہاں غریبوں کے مقابلے امیر بچوں کی تعلیم پر چار گنا زیادہ تک رقم خرچ کی گئی تھی۔

گنی اور وسطی افریقہ جمہوریہ ان ممالک میں شامل ہیں، جہاں بچوں کے اسکول سے ڈراپ آوٹ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ان ملکوں میں حکومت تعلیم پر جو رقم خرچ کرتی ہے، اس سے غریب بچوں کے مقابلے میں امیر بچوں کو ہی زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق باربا ڈوس، ڈنمارک، آئر لینڈ، ناروے اور سویڈن ہی صرف ایسے ممالک ہیں جہاں امیروں اور غریبوں کے بچوں کی تعلیم پر سرکاری رقم یکساں طور پر خرچ کی جاتی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق کم اور درمیانہ آمدنی والے ملکوں میں نصف سے زیادہ بچے پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی آسان کتابیں نہ تو پڑھ پاتے ہیں اور نہ ہی سمجھ پاتے ہیں۔

حکومتیں تعلیم پر یکساں خرچ یقینی بنائیں

یونیسیف نے حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ تعلیم کی مد میں خرچ کی جانے والی سرکاری رقوم کو غریب اور امیر گھرانوں کے بچوں میں برابر تقسیم کرنے کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ دونوں طبقوں کو یکساں فائدہ ہو۔

یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے مزید کہا، ”ہم ایک انتہائی اہم موڑ پر ہیں۔ اگر ہم بچوں کی تعلیم پر سمجھ داری کے ساتھ مساوی طور پر سرمایہ کاری کریں، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ غریب بچوں کو ہنر مند بنا کر مواقع تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کر کے اور نئے مواقع پیدا کرکے ہم انہیں غربت سے باہر نکال سکیں گے۔"

رپورٹ میں نچلی سطح پر تعلیم کے مد میں سرکاری فنڈنگ کو ترجیح دینے اور دھیرے دھیرے اسے اعلی سطح پر بڑھانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

اس رپورٹ میں پرائمری تعلیم پر زیادہ توجہ دینے پر زور دیا گیا ہے کیوں کہ یہی وہ بنیاد ہے، جس پر اسکول کی تعلیم کے دیگر مراحل کا دارومدار ہوتا ہے۔ ایسے بچے جو پری پرائمری اسکول کی تعلیم بہتر طور پر مکمل کر لیتے ہیں، اسکو ل میں ان کے آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ بہتر ہوتے ہیں اور وہ جب جوان ہوتے ہیں تو اپنی معیشتوں اور سماج کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔"

یونیسیف کا کہنا ہے کہ ہر ملک کو اپنے بجٹ کا کم از کم دس فیصد تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے۔

ج ا / ع ب / شامل شمش

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں