تین دہائیوں میں جمع کردہ سکے بینک نے چھ ماہ میں گنے
شمشیر حیدر Cristina Burack
17 دسمبر 2017
جرمنی میں ایک ٹرک ڈرائیور کئی دہائیوں تک سکے جمع کرتا رہا اور اس کے مرنے کے بعد یہ ’دولت‘ خاندان کو وراثت میں ملی۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیش آیا جب اہل خانہ ڈھائی ٹن وزنی یہ سکے کیش کرانے بینک پہنچے۔
اشتہار
شمالی جرمنی کے پبلک براڈکاسٹر این ڈی آر کے مطابق ساڑھے پانچ ہزار پاؤنڈ وزنی ان لاکھوں سکوں کی گنتی کرنے کے لیے وفاقی جرمن بینک یا ’ڈوئچے بنڈس بینک‘ نے ایک کلرک کو متعین کیا، جس نے مسلسل چھ ماہ تک ان سکوں کی گنتی کرتے ہوئے آخر کار یہ کام مکمل کر ہی لیا۔
یہ سکے ایک جرمن ٹرک ڈرائیور نے اپنے اہل خانہ کے لیے وراثت میں چھوڑے تھے۔ اس شہری نے تیس برسوں کے دوران قریب بارہ لاکھ سکے جمع کیے، جنہیں سینکڑوں تھیلوں میں بھر کر گھر میں ہی ذخیرہ کیا گیا تھا۔
ان سکوں میں اکثریت سابق وفاقی جرمن کرنسی ڈوئچ مارک کے ایک اور دو سینٹ مالیت کے سکوں کی تھی۔ سن 2002 میں ڈوئچ مارک کی جگہ یورو نے لے لی تھی لیکن اس کرنسی کو کسی بھی وقت بینک میں واپس جمع کراتے ہوئے اس کے عوض یورو حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ عام طریقہ یہ ہے کہ عوام اپنی سہولت کی خاطر اگر چاہیں تو ڈوئچ مارک کے نوٹ یا سکے بذریعہ پوسٹ بھی وفاقی جرمن بینک کو بھجوا سکتے ہیں
دنیا کو تبدیل کرنے والی پانچ جرمن ایجادات
’تھرماس‘، ’ٹوتھ پیسٹ‘ ’پاور ڈرِل‘ اور ’وال پلگ‘ یہ تمام اہم ایجادات جرمنی میں ہوئیں۔
تصویر: DW
وال پلگ
بالخصوص تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والے وال پلگ بہت پہلے ہی ایجاد ہو چکے تھے لیکن یہ مؤثر نہیں تھے۔ تاہم سن 1958 میں جرمن موجد آرتھر فشر نے ان پلگوں کی ساخت بدل دی اور ان میں ’دانت‘ لگا دیے۔ یوں جب انہیں پیچ کس سے کسا گیا تو یہ مضبوط شکل اختیار کر گئے۔ یہ طریقہ کار اب ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو درست حالت میں لانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
تھرماس فلاسک
انیسویں صدی کے آغاز میں جرمنی میں گلاس کے برتن بنانے میں مہارت رکھنے والے رائنہولڈ بیرگر نے ایسے برتن بنانے شروع کر دیے تھے، جن میں لیکوڈ گیسوں کو اسٹور کیا جاتا تھا تاکہ انہیں ٹرانسپورٹ کیا جا سکے۔ اسی سائنسی اصول کے تحت انہوں نے ایک نیا فلاسک ایجاد کیا، جو آج کل لوگوں کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ بیرگر نے سن 1903 میں اس ایجاد کے حقوق اپنے نام کرا لیے تھے۔
تصویر: Imago/Westend61
شپیگیٹی آئس کریم
داریو فونٹینلا نے جرمن شہر من ہائم میں پہلی مرتبہ شپیگیٹی آئس بنا کر سب کو حیران کر دیا۔ اس کے لیے انہوں نے شیٹزل میکر استعمال کیا، جس سے خاص قسم کے نوڈلز بنائے جاتے ہیں۔ سن 1969 میں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ تجربہ ونیلا آئس کریم کے ساتھ کیا۔ اسٹرابری کے رس اور پسے ہوئے باداموں کی آمیزیشن سے بنی یہ شپیگیٹی آئس کریم اب بھی جرمنی بھر میں انتہائی مقبول ہے۔
تصویر: Fotolia/unpict
پاور ڈرِل
جرمنی کی ’فین کمپنی‘ میں کام کرنے والے دو ملازمین ہاتھوں کی مدد سے ڈرل کرتے تھے لیکن انہوں نے اس کام کو آسان بنانے کی خاطر ’ڈرل چک‘ کے ساتھ ایک چھوٹی سی موٹر لگا دی۔ یوں انہیں سوراخ کرنے کی خاطر اضافی قوت لگانے کی ضرورت نہ رہی۔ ایمل فین نے اس ایجاد کی اہمیت کو بھانپ لیا اور اسی اصول کے تحت پہلی ڈرل مشین بنا ڈالی۔ یہ ایجاد اب گھر گھر موجود ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
ٹوتھ پیسٹ
سن انیس سو سات میں ڈریسڈن کے فارمسٹ اوٹومار فان مائن بُرگ نے تجرباتی طور پر قدرتی اجزا سے ایک پیسٹ تیار کی، جو دراصل دانتوں کے درد میں مبتلا افراد کے لیے ایک دوا تھی۔ تاہم جلد ہی یہ معمولی تبدیلی کے ساتھ عام استعمال کے دستیاب کر دی گئی۔ اگرچہ اب مارکیٹ میں دانت صاف کرنے والی بہت سی مصنوعات عام ہو چکی ہیں لیکن فان مائن برگ کی Chlorodont نامی ٹوتھ پیسٹ کو ان سبھی مصنوعات کی ’ماں‘ قرار دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Zentralbild/H. Wiedl
5 تصاویر1 | 5
لیکن اس برس مئی کے مہینے میں اس ٹرک ڈرائیور کے انتقال کے بعد اس کے اہل خانہ کی مجبوری یہ تھی کہ انہیں ملنے والی وراثت ڈھائی ٹن وزنی تھی، اور وہ اسے ایک ٹرک میں لاد کر ہی بینک تک پہنچا سکے تھے۔
مشین کے بس کی بات ہی نہ تھی
جرمنی کے بنڈس بینک کے ایک ترجمان نے پبلک براڈکاسٹر NDR کو بتایا کہ ان سکوں کو مشین کی مدد سے نہیں گنا جا سکتا تھا کیوں کہ ان میں سے کئی زنگ آلود تھے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے انہیں گننے کے لیے بینک کے عملے کے ایک اہلکار کو متعین کرنا پڑا۔ جرمن شہر اولڈن برگ میں ’ڈوئچے بنڈس بینک‘ کی اس شاخ میں سکوں کی گنتی کی یہ ذمہ داری وولف گانگ کیمیرائٹ نامی ایک کلرک کو سونپی گئی تھی، جس نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران اپنے روز مرہ کے کام کے ساتھ ساتھ ہر روز ان سکوں کی گنتی کا کام بھی کیا۔
این ڈی آر سے گفتگو کرتے ہوئے کیمیرائٹ کا کہنا تھا، ’’میں نے ایک ایک سکہ اپنے ہاتھوں سے گنا، ایسا کام کرنے میں مجھے مزہ آتا ہے اس لیے میرے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔‘‘ اسے سکوں سے بھرا ہر بیگ گننے میں کم از کم بھی ایک گھنٹہ لگا۔
آخر کار یہ عمل رواں ہفتے مکمل ہو گیا اور اس جرمن ٹرک ڈرائیور کے اہل خانہ کو ڈھائی ٹن سکوں کا بدل مل گیا، جو آٹھ ہزار یورو بنا۔
روزمرہ استعمال کی 10 چیزیں جو جرمنی میں ایجاد ہوئیں
جرمنی کو لاتعداد اہم ایجادات کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے جن میں موٹر گاڑیوں سے لے کر اسپرین اور نیوکلیئر فشن جیسی ایجادات شامل ہی۔ لیکن شاید آپ کو یہ معلوم نہ ہو کہ روزمرہ استعمال کی یہ 10 چیزیں بھی جرمنی میں ایجاد ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
ایم پی تھری
آڈیو فائلز کو کوالٹی پر سمجھوتہ کیے بغیر کم جگہ پر اسٹور کرنے کے لیے ایم پی تھری یا MPEG-2 آڈیو لیئر تھری کوڈنگ کا طریقہ کارل ہائنز برانڈن برگ نے 1980ء میں تیار کیا تھا۔ اس نے آڈیو کے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔
تصویر: Fotolia/Aaron Amat
کاغذوں میں سوراخ کرنے والا ’ہول پنچ‘
دفتروں میں ضروری کاغذات کو فائلوں میں لگانے سے قبل اس میں دو سوراخ کرنے والا ہول پنچ انیسویں صدی میں جرمن ماہر ماتھیاس تھیل نے ایجاد کیا تھا جبکہ اسے فریڈرک زونیکن نے اسے 14 نومبر پیٹنٹ کرایا۔
تصویر: Colourbox
ڈرل میشن
سخت اشیاء میں سوراخ کرنے کے لیے بجلی سے چلنے والی ڈرل ایجاد تو 1889ء میں آسٹریلیا میں ہوئی تھی تاہم جرمنی کے شہر لُڈوِگزبرگ کے وِلہیلم ایمِل فائن نے 1895ء میں اسے دستی ڈرل میں تبدیل کر دیا۔ یہ مشین گھر اور باہر مرمت کے کاموں کے لیے ایک لازمی جزو بن گئی ہے۔
تصویر: DW
فانٹا
دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے جرمنی سے بڑی مقدار میں برآمد ہونے والے مشروب کوکا کولا کی بیرون ملک برآمد پر پابندی عائد کردی۔ تاہم کوکا کولا جرمنی کے سربراہ ماکس کِیتھ نے مقامی اجزاء سے ایک نئے مشروب کی تیاری کا فیصلہ کیا اور یوں 1941ء میں مشہور زمانہ مشروب فانٹا وجود میں آیا۔
تصویر: imago/Steinach
کافی فِلٹر
1908ء میں ڈریسڈن کی ایک خاتون خانہ میلیٹا بینٹز Melitta Bentz نے کافی چھاننے کے لیے کافی فلٹر تیار کیا۔ انہوں نے اس ایجاد کو پیٹنٹ کرا لیا اور آج ان کے خاندانی کاروبار ’میلیٹا گروپ کے جی‘ میں ملازمین کی تعداد 3300 ہے۔
تصویر: imago/Florian Schuh
چپکنے والی ٹیپ
فارماسسٹ اوسکر ٹروپلووِٹز نے چپکنے والی ٹیپ ایجاد کی جو چھوٹے موٹے زخموں پر لگائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے 1901ء میں لیوکوپلاسٹ نامی چپکنے والا پلاسٹر بھی تیار کیا جو چوٹ وغیرہ کی صورت میں انتہائی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اکارڈین
موسیقی کا آلہ اکارڈین 1822ء میں برلن میں کرسٹیان فریڈرش لُڈوِگ بُش مان نے ڈیزائن اور تیار کیا۔ تھورِنگیا میں پیدا ہونے والے اس ماہر نے اطلاعات کے مطابق اکارڈین سے قبل ہارمونیکا بھی تیار کیا تھا۔
تصویر: Axel Lauer - Fotolia.com
کرسمس ٹری
فِن لینڈ سانتا کلاز متعارف کرانے کا دعویدار ہو سکتا ہے مگر کرسمس ٹری کا تعلق جرمنی سے ہے۔ جرمنی میں ٹانن باؤم کہلانے والی اس روایت کا آغاز کرسمس کی عام سجاوٹ سے ہوا تاہم انیسویں صدی کے آخر تک یہ دنیا بھر میں معروف ہو گئی۔ روایتی طور پر کرسمس ٹری کو پھلوں، خشک میووں اور موم بتیوں سے سجایا جاتا تھا مگر اب تو رنگ برنگی روشنیاں اور تحائف کرسمس ٹری کا حصہ بن گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Thomas Winkler
کیلوں والے فٹبال کے جوتے
فٹبال کھیلنے کے لیے خصوصی جوتوں کا پروٹوٹائپ تو برطانیہ میں تیار کیا گیا تھا تاہم اڈیڈاس کے بانی ایڈی ڈاسلر نے 1954ء میں فٹبال کے یہ جدید جوتے ایجاد کیے جن کے نیچے بہتر گرِپ یا پکڑ کے لیے نوکیلے ابھار موجود ہوتے ہیں۔ یہ وہی سال ہے جب جرمنی نے فٹبال کا ورلڈ کپ بھی جیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ٹیکسی میٹر
ٹیکسی میٹر برلن کے رہائشی فریڈرِش وِلہیلم گستاف بروہن نے تیار کیا۔ 1891ء میں یہ میٹر دراصل موٹرکار کے موجد گوٹلیب ڈائملر کے لیے تیار کیا گیا تھا مگر اس وقت سے اب تک ٹیکسی میں سفر کرنے والے کا دوران خون بڑھانے کا مؤجب بنا ہوا ہے۔