تین سال بعد دنیا کا ہر چوتھا آئی فون بھارت میں بنا ہوا ہو گا
21 ستمبر 2022
دنیا کے بڑے مالیاتی کاروباری اداروں میں سے ایک جے پی مورگن کے مطابق آج سے تین سال بعد امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کا ہر چوتھا آئی فون بھارت میں تیار شدہ ہو گا، جو چین کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی موبائل فون مارکیٹ ہے۔
اشتہار
جے پی مورگن کے مالیاتی تجزیہ کاروں نے بدھ اکیس ستمبر کے روز بتایا کہ ایپل کی کوشش ہے کہ وہ مسلسل بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور کووڈ انیس کی عالمی وبا کے باعث چین میں لاک ڈاؤن کے انتہائی سخت ضابطوں کے پیش نظر اپنی مصنوعات کی پیداوار کا ایک حصہ چین سے باہر منتقل کر دے۔
اس تناظر میں توقع ہے کہ ایپل اپنے مشہور زمانہ آئی فون کے تازہ ترین ماڈل iPhone 14 کی مجموعی پیداوار کا تقریباﹰ پانچ فیصد حصہ رواں برس کے آخر تک بھارت منتقل کر دے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ 2025ء تک ایپل کا ہر چوتھا آئی فون بھارت ہی میں تیار شدہ ہو گا، جو چین کے بعد آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور عالمی سطح پر موبائل فون کی دوسری سب سے بڑی منڈی بھی۔
جے پی مورگن کے تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت ایپل کی آئی فون، میک بُک، آئی پیڈ، ایپل واچ اور ایئر پوڈز جیسی مصنوعات کا صرف پانچ فیصد حصہ ہی چین سے باہر تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن ان ماہرین کو اندازہ ہے کہ آج سے تقریباﹰ تین سال بعد ان تمام مصنوعات کا قریب 25 فیصد چین سے باہر تیار کردہ ہو گا۔
ایپل ایسی پہلی کمپنی، جس کے شیئرز کی مالیت تین ٹریلین ڈالرز
کورونا وائرس کی وبا کے دوران ایپل کمپنی کے آئی فونز کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا، جس کے باعث اس کے شیئرز نے ایک نیا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ مائیکروسافٹ، ایلفابیٹ اور ایمازون تو اس مقابلے میں کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہے۔
تصویر: APPLE INC/REUTERS
ایک نیا سنگ میل
اٹھارہ ماہ قبل ایپل پہلی ایسی امریکی کمپنی بنی، جس کے شیئرز کی مالیت دو ٹریلین ڈالرز ہوئی تھی۔ انتہائی مختصر وقت میں ہی اس کے شئیرز کی مالیت اب تین ٹریلین ڈالرز ہو گئی ہے۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا میں اس کمپنی کی مصنوعات بالخصوص آئی فونز کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، وجہ، لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ ورچوئل رابطے میں رہنا چاہتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Kataoka
کوئی ثانی نہیں دور تک
امریکی کمپنی ایپل کی چھلانگ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا، حتیٰ کہ اس کی ہم وطن کمپنیاں مائیکروسافٹ، ایلفابیٹ (گوگل) اور ایمازون تو اس دوڑ میں کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کمپنیوں نے بھی کووڈ انیس کی عالمی وبا میں خوب کمائی کی۔ ان کمپنیوں کے مالی اثاثوں کی قدر بالتریب ڈھائی ٹریلین، دو ٹریلین اور ایک اعشاریہ سات پانچ ٹریلین ڈالرز بنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moon
نیا ارب پتی
ایپل کمپنی کے مالی اثاثوں میں اس قدر اضافے کی وجہ سے اس کمپنی کے سی ای او ٹِم کُک بھی ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ انہوں نے سن 2011 میں یہ عہدہ سنبھالا تھا، تب اس کمپنی کے اثاثوں کی مالیت 350 بلین تھی۔ تب کئی حلقوں کو شک تھا کہ آیا وہ اس کمپنی کو سنبھال بھی سکیں گے؟ کک نے اپنی زیادہ تر دولت چیرٹی میں دینے کا عہد کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/T. Avelar
گیراج سے عالمی افق تک
ایپل کمپنی کا پہلا دفتر اس کے بانی اسٹیو جابز کے گھر کا ایک گیراج تھا۔ اسٹیو جابز نے اپنے ہائی سکول کے زمانے کے دوست اسٹیو ووزنیئک کے ساتھ مل کر سن 1974ء میں اس کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ پرسنل کمپیوٹر کے حوالے سے یہ پہلی کامیاب کمپنی ثابت ہوئی۔ چار سال بعد یعنی 1980ء میں ایپل نے عوام کے لیے اپنی مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کرائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
تہلکہ خیز پراڈکٹ
میکنٹوش (میک) ایپل کی تہلکہ خیز پراڈکٹ ثابت ہوئی، اَسّی کی دہائی میں گرافیکل یوزر انٹرفیس کے ساتھ یہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک بڑی پیشرفت قرار دی گئی۔ تاہم محدود میموری اور ایک کھلونے کی طرح نظر آنے والا یہ کمپیوٹر مارکیٹ میں زیادہ جگہ نہ بنا سکا۔ اس ناکامی پر 1985ء میں جابز کو اس کمپنی سے الگ ہونا پڑ گیا۔
تصویر: imago/UPI Photo
اسٹیو جابز کی واپسی
سن انیس سو ستانوے میں اپیل کمپنی دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی تھی، تب ایک مشکل وقت میں اسٹیو جابز ایک مرتبہ پھر اس کمپنی سے وابستہ ہوئے۔ اس کے بعد ایپل کمپنی نے ایک نیا جنم لیا۔ جابز کی تخلیقات آئی پوڈ اور پھر آئی فون نے انسان کے دیکھنے اور سوچنے کا طریقہ ہی بدل دیا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
آئی فون کی دنیا
ایپل کمپنی کی سب سے اہم اور کامیاب ترین پراڈکٹ آئی فون ثابت ہوئی۔ ایسا پہلا فون، جس میں میوزک بھی بجایا جا سکتا تھا۔ یہ بات شاید اب آپ کو عجیب لگے کیونکہ اب تو میوزک کے بغیر کسی سمارٹ فون کا تصور بھی ممکن نہیں۔
تصویر: AP
ویب براؤزنگ کی سہولت
نہ صرف میوزک بلکہ یہ ایک ایسا فون تھا، جس میں ویب براؤزنگ کی سہولت کے علاوہ ای میل کی ایپس بھی متعارف کرائی گئیں۔ ایک چھوٹی سی ڈیوائس پر سبھی کچھ دستیاب، یہ تھا پہلا آئی فون۔ سن 2007ء میں اس ٹیکنالوجی نے نوکیا، موٹرولا اور بلیک بیری جیسی بڑی موبائل کمپنیوں کو برباد کر دیا۔
تصویر: Justin Sullivan/Getty Images
کہانی ابھی باقی ہے
ایپل کمپنی کمیونیکشن کی دنیا میں مزید اختراعات کا منصوبہ رکھتی ہے۔ نئی اور جدید ٹیکنالوجی کو مزید بہتر اور تیز بنانے کی خاطر ایپل بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہی ہے جبکہ اپنی سروسز کو مزید بہتر اور کارآمد بنانے کی کوششوں میں بھی جتی ہوئی ہے۔
تصویر: Brooks Kraft/Apple Inc/REUTERS
9 تصاویر1 | 9
بھارت میں آئی فون کی اسمبلنگ
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل کا شمار دنیا کے سب سے بڑے کاروباری اداروں میں ہوتا ہے اور اس کے صدر دفاتر امریکی ریاست کیلیفورنیا میں کُوپرٹینو میں ہیں۔ ایپل نے بھارت میں آئی فون کی اسمبلی لائن 2017ء میں شروع کی تھی۔
اشتہار
اس کے لیے ایپل نے پہلے تائیوان کی کمپنی وِسٹرون اور پھر تائیوان ہی کے فوکس کون گروپ کے ساتھ تعاون کیا تھا، کیونکہ ایسا کرنا اس کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی بھارت میں جدید ٹیکنالوجی مصنوعات کی تیاری کو فروغ دینے کی پالیسی کے تحت لازمی ہو گیا تھا۔
کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث کئی بڑے بڑے عالمی اداروں کے لیے اپنی سپلائی چین کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے کا عمل سست روی کا شکار ہو گیا تھا۔ اب لیکن ایپل سمیت کئی اداروں نے اپنی سپلائی چین اور اسمبلی لائن کو چین سے باہر منتقل کرنے کا عمل تیز تر کر دیا ہے۔
نیوریل ہیش: ایپل آپ کی جاسوسی آخر کیوں کرنا چاہتا ہے؟
03:57
درست پیش گوئی
مستقبل قریب میں ایپل کے آئی فون سمیت اس کی تقریباﹰ 25 فیصد مصنوعات کی بھارت میں تیاری سے متعلق یہ تجزیہ جے پی مورگن کے کاروباری ماہرین کی جس ٹیم نے کیا، اس کی سربراہی گوکُل ہری ہرن نامی تجزیہ کار نے کی۔
ان کی طرف سے عالمی سطح پر کاروباری سرگرمیوں اور ترجیحات سے متعلق لگائے گئے ہر پانچ میں سے چار اندازے بالکل درست ثابت ہوتے ہیں۔
امریکی نیوز چینل بلومبرگ نے اسی ماہ کے اوائل میں بتایا تھا کہ بھارت کا بہت بڑا صنعتی گروپ ٹاٹا وِسٹرون کے ساتھ اس مقصد کے تحت کاروباری مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھا کہ بھارت میں آئی فون اسمبل کرنے کے لیے ایک ممکنہ مشترکہ صنعتی منصوبے کا حصہ بن سکے۔
م م / ا ب ا (روئٹرز)
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔