1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین لاپتہ لڑکیوں کا سراغ اور پاکستان کا ٹوٹتا فیملی سسٹم

27 اپریل 2022

یکے بعد دیگرے کراچی سے تین لڑکیاں لاپتہ ہوئیں، جنہوں نے پسند کی شادی کا اعتراف کیا ہے جبکہ ان میں سے ایک لڑکی نے اپنے والد پر ہی اغوا کا الزام عائد کر کے ان کے خلاف کیس بھی درج کروایا ہے۔

تصویر: privat

ان لڑکیوں میں سے دو کی عمریں 14 برس کے قریب جبکہ تیسری لڑکی کی عمر پچیس سال ہے۔ کم سن بچیوں کا گھر چھوڑ کر مرضی سے شادی کرنے کا فیصلہ پاکستان کے فیملی سسٹم اور بچوں کی تربیت و پرورش پر کئی سوالیہ نشانات اٹھا رہا ہے۔ کیا والدین کم عمر بچوں کے مسائل سے بے خبر ہیں؟ یا پھر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اور والدین کی غیر ذمہ داری ایسے مسائل کو جنم دے رہی ہے؟

کیا تہذیب کی آڑ میں بچوں کی بات نا سننا اور انہیں ہر بات پر زبان بند رکھنے کا درس دینا اس کی ایک وجہ ہے؟ یا پھر والدین بچوں کو پراپرٹی سمجھ کر ان پر اپنی مرضی مسلط کرنا جائز حق سمجھتے ہیں؟ کیا کم سن بچے والدین سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ اپنے مسائل ان سے ڈسکس نہیں کر پا رہے اور فرار کی راہ اختیار کر رہے ہیں؟ یا پھر نئی نسل ہی بغاوت پر اتر گئی ہے؟

پاکستانی کلچر میں عام طور پر مرد حضرات آفس کے بعد دوستوں کے ساتھ یا پھر موبائل میں مصروف پائے جاتے ہیں جبکہ خواتین گھر کے کاموں سے فراغت کے بعد سوشل لائف میں مصروف ہوتی ہیں۔ بظاہر والدین کی نظروں کے سامنے بچے صبح اسکول جا تے ہیں اور گھر واپس آ کر کسی نا کسی کام میں مشغول نظر آتے ہیں۔ لیکن کیا والدین اس بات سے باخبر ہیں کہ بچوں نے تعلیمی اداروں میں سارا دن کیسے گزارا اور گھر میں ان کے مشاغل کی تفصیلات کیا ہیں؟

تو اس کا جواب ہے زیادہ تر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی سب سے اہم وجہ کمیونیکیشن گیپ ہے۔ بچوں کے ساتھ وقت نا گزارنا اور ان کی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر انہیں خاموش رہنے کا درس دینا کم عمر بچوں کے مسائل کی جڑ ہے۔ عام طور پر والدین بچوں کی انفرادیت کو اگنور کرتے ہیں اور انہیں ڈرا دھمکا کر اور مار پیٹ کے ذریعے ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی تگ ودو کرتے رہتے ہیں۔

دوسری طرف بچوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہو جاتی ہے کہ والدین ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیں گے خواہ وہ کتنی ہی اہمیت اور حسساسیت کی حامل کیوں نہ ہو۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے وہ کسی نا کسی راہ فرار کے منتظر ہوتے ہیں۔

عام طور پر کم عمری میں ہی والدین بچوں کو جدید ڈیوائسز فراہم کر دیتے ہیں، جن کے استعمال سے بچے ناآشنا تو نہیں ہوتے لیکن ٹیکنالوجی کو مثبت طریقے سے کس طرح استعمال کرنا ہے؟ اس بات سے وہ بے خبر ہوتے ہیں۔ والدین کی طرف سے کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے اس معاملے پر کوئی بات چیت بھی نہیں ہوتی۔

میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں کہ نئی نسل کو ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ جدید تقاضوں کے مطابق اسی کے ذریعے وہ ترقی کے زینے چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن کیا والدین بچوں کو جدید ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز فراہم کرنے کے بعد اس بات کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں کہ کم عمر بچے موبائل پر کن ایپس کا استعمال کر رہے ہیں؟ اور اس کے ذریعے ان کے امیچور دماغ پر کس قسم کے اثرات ہو رہے ہیں؟

جدید ٹیکنالوجی نے ڈیوائیسز کی مانیٹرنگ نہایت آسان بنا دی ہے اور ایک کلک پر اس کا طریقہ کار والدین کی پہنچ میں ہے۔ اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ زندگی کی ہر سہولت فراہم کرنے کے باوجود بچے باغی ہو گئے ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ تشدد، جبر، بلاوجہ کی روک ٹوک اور زبردستی فیصلے مسلط کرنا بچوں کی بغاوت کرنے کی چند وجوہات ہیں۔

حالیہ تین واقعات کے بعد کیا والدین کو یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کی طرف سے تربیت میں کس چیز کی کمی ہوئی کہ چودہ سالہ لڑکی نے اپنے مسائل والدین سی ڈسکس کرنے کے بجائے گھر چھوڑ کر پسند کی شادی کرنے کو ترجیح دی؟

کیا والدین کو یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح کمیونیکشن گیپ ختم کر سکتے ہیں اور بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکتے ہیں؟ وہ کس طرح گھر میں اور گھر سے باہر ان کی مصروفیات سے نا صرف آگاہ رہ سکتے ہیں بلکہ ان کی مکمل نگرانی بھی کر سکتے ہیں؟

کیا اب بھی ان سوالات پر غور کرنا ضروری نہیں ہے؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں