تین مخلتف عسکری گروہوں سے مبینہ تعلقات رکھنے والے تین پاکستانیوں کو ’دہشت گردوں کا سہولت کار‘ قرار دیتے ہوئے انہیں عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد ان عسکری گروہوں کو مالی نقصان پہنچانا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی وزارت خزانہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ تین پاکستانی شہریوں کو دہشت گرد گروہوں کا مالی معاون قرار دیتے ہوئے انہیں دہشت گروں کی عالمی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
دہشت گردوں کے ’محفوظ ٹھکانے‘ ختم کر دیے جائیں گے، ہلینا وائٹ
04:17
بدھ کے دن امریکی حکومت نے یہ اعلان کرتے ہوئے مزید کہا کہ یوں ان افراد کی طرف سے مالی عطیات جمع کرنے اور انہیں جنگجو گروہوں تک پہنچانے کے عمل کو روکا جا سکے گا۔
پابندی کی زد میں آنے والے ان پاکستانیوں کے نام رحمان زیب فقیر محمد، حزب اللہ استم خان اور دلاور خان نادر ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ کے مطابق یہ افراد القاعدہ، لشکر طیبہ اور طالبان کمانڈر شیخ امین اللہ کے لیے کام کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت نے شیخ امین کو سن دو ہزار نو میں عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔
امریکی حکام کے مطابق ان افراد کو دہشت گردوں کی عالمی فہرست میں شامل کرنے سے ان کالعدم عسکری تنظیموں کو مالی وسائل کی فراہمی کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ کہا گیا ہے کہ یہ افراد پاکستان اور افغانستان میں انتہا پسندوں کو انتظامی اور مالی مدد فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں۔
امریکی حکام الزام عائد کرتے ہیں کہ شیخ امین اللہ نے پشاور میں واقع لڑکوں کے ایک اسکول کو ’گنج مدرسہ‘ میں تبدیل کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی مدرسے میں بچوں کو انتہاپسندی کی تعلیم دیتے ہوئے انہیں القاعدہ، لشکر طیبہ اور طالبان کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔
رحمان زیب کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ گلف ریجن میں فعال ہے، جہاں سے وہ لشکر طیبہ کے لیے فنڈز جمع کرتا ہے اور اس عسکری گروہ کو انتظامی مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کے مطابق اس نے سن دو ہزار چودہ میں شیخ امین اللہ کو خلیجی ممالک کا دورہ کرنے میں بھی تعاون کیا تھا۔
حزب اللہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ شیخ امین اللہ کے مدرسے کو چلانے میں مدد دیتا ہے جبکہ اس نے شیخ امین اللہ کے گلف ریجن کے دورے کے دوران بھی تعاون کیا تھا۔ دلاور خان کو شیخ امین اللہ کا قریبی نائب قرار دیا جاتا ہے، جو شیخ امین کے دوروں کو آرگنائز کرتا رہا ہے اور ساتھ ہی اس کے لیے خط وخطابت کا کام کرنے کے علاوہ مالیاتی امور بھی دیکھتا ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔