تیونس کے صدر نے پارلیمان کو اس بار غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے۔ تاہم ان کے ان کے اس فیصلے سے کئی حلقوں میں ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔
اشتہار
تیونس کے صدر قیس سعید کے دفتر نے پیر کے روز جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ صدر نے آئندہ کسی بھی نوٹس تک پارلیمان کی معطلی میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر نے ارکان پارلیمان کو جو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اس کی معطلی میں بھی توسیع کا اعلان کیا ہے۔
صدر قیس سعید نے گزشتہ ماہ وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ملک کے انتظامی امور خود ہی سنبھالیں گے۔ ملک میں پر تشدد مظاہروں کے بعد انہوں نے اپنے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا تھا کہ ملک کو تباہی سے بچانے کے لیے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔
اس وقت صدر سعید نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ جلدی ہی ایک نئے وزیر اعظم کو مقرر کریں گے تاہم انہوں نے ابھی تک یہ وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔ مغربی ممالک نے ان سے پارلیمان کو بھی بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم انہوں نے اب تک پارلیمان کو دوبارہ بحال کرنے کا کوئی خاکہ بھی پیش نہیں کیا ہے۔
صدارتی بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر قیس سعید آنے والے دنوں میں قوم سے خطاب کرنے والے ہیں۔
صدر کو کتنی حمایت حاصل ہے؟
یہ واضح نہیں کہ صدر کو اپنے ان اہم اقدامات کی سیاسی سطح پر کتنی حمایت حاصل ہے۔ تاہم یہ بات بھی درست ہے کہ 2011 کے بہارعرب کے بعد پارلیمان میں النّہضہ نامی جو سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی اس سے بھی لوگ کافی ناراض ہیں اور شاید اسی رسہ کشی کی وجہ سے یہ سیاسی بحران کھڑا ہوا۔
النّہضہ پارٹی کے رہنما راشد غنوشی نے صدر کے ان اقدامات کو بغاوت قرار د یا تھا اور عوام سے اس کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کو کہا تھا۔
تیونس میں جس طرح کورونا کی وبا سے نمٹنے کی کوششیں کی گئیں اور اس کے لیے بندشیں عائد کی گئیں اس سے عوام خوش نہیں ہے۔ لوگوں میں بڑھتی بے روز گاری، معاشی مندی اور خراب معیار زندگی کی وجہ سے کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔
سیاسی بحران کی وجہ کیا ہے؟
تیونس میں سن 2011 کے انقلاب کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام جاری ہے جس کی وجہ سے زین العابدین بن علی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ سیاسی رہنما ایسی حکومتیں قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو دیر پا ہوں۔ گزشتہ ایک برس سے بھی کم عرصے میں ہشام مشیشی کی یہ تیسری حکومت تھی۔
شمالی افریقی ملک تیونس میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد بندشوں سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور لوگوں میں کافی بے چینی ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ تقریباً ایک برس سے صدر قیس سعید اور مشیشی کے درمیان سیاسی چپقلش جاری تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔