تیونس: صدر کے سیاسی حریف کے ٹی وی چینل پر پابندی عائد
28 اکتوبر 2021
تیونس میں میڈیا پر نظر رکھنے والے ادارے نے صدر کے سیاسی حریف کی ملکیت والے ٹی وی چینل کو بند کر دیا ہے۔ صدر قیس سعید کی انتظامیہ نے ایک مذہبی ریڈیو اسٹیشن 'قرآن کریم' پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
تصویر: Ammar ABD RABBO/Balkis Press/abaca/picture alliance
اشتہار
تیونس میں ذرائع ابلاغ سے متعلق ریگولیٹری ادارے 'ایچ اے آئی سی اے' نے 27 اکتوبر بدھ کے روز اعلان کیا کہ اس نے 'نسمہ' ٹی وی چینل اور ایک مذہبی ریڈیو اسٹیشن 'قرآن کریم' کو بند کر دیا ہے۔ نسمہ ٹی وی کے مالک نبیل کروی ملکی صدر قیس سعید کے سیاسی حریف ہیں، جو فی الوقت الجیریا میں حراست میں ہیں۔
ایچ اے آئی سی اے کا کہنا ہے کہ دونوں ہی اسٹیشن بغیر لائسنس کے کام کر رہے تھے، حالانکہ یہ بھی درست ہے کہ دونوں کے پاس لائسنس گزشتہ تقریبا ًایک برس سے نہیں تھا۔
آزادی صحافت کے لیے خطرہ
میڈیا پر نظر رکھنے والے اداروں نے قیس سعید کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یہ شکایت کی تھی کہ نسمہ ٹی وی اور قرآن کریم ریڈیو اسٹیشن کا استعمال سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے ذرائع کے طور پر ہوتا ہے۔
ادارے کا کہنا تھا، ''نسمہ سیاسی جماعت 'ہارٹ آف تیونس' کے ایک سرکردہ رہنما کی ملکیت ہے اور اس کے مواد سے بھی یہ بات جھلکتی تھی۔ اس نے آڈیو ویژوول مواصلات سے متعلق آزادانہ اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔'' ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے نیسما ٹی وی کے اسٹوڈیوز اور نشریات سے متعلق اس کا تمام ساز و سامان ضبط کر لیا ہے۔
قرآن کریم ریڈیو اسٹیشن کے مالک رکن پارلیمان سعید جزیری ہیں جن کا تعلق الرحمہ پارٹی سے ہے۔ نبیل کروی کو ماہ ستمبر میں الجیریا میں اس الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے تھے۔
سن 2019 کے صدارتی انتخابات میں نیبیل کروی 'ہارٹ آف تیونس پارٹی' کے رہنما کے طور پر صدارتی امید وار تھے۔ وہ اسلام پسند جماعت النہضہ سے بھی منسلک ہیں تاہم ان کا سیاسی ایجنڈا سخت گیر اسلام کی مخالفت اور غربت کے خلاف جنگ پر مرکوز تھا۔
تصویر: picture alliance / abaca
سن 2017 سے ہی تیونس کی حکومت نے نبیل کروی کے خلاف منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے الزام کے تحت کئی مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔ 2019 میں انہیں ایک ماہ سے زیادہ قید میں بھی رکھا گیا تھا اور اس کے بعد دسمبر 2020 سے جون 2021 تک وہ ریمانڈ پر بھی تھے۔
صدر کے ناقدین دونوں چینلوں کو بند کرنے کے اقدام کو تیونس میں آزادی صحافت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
بد نظمی کی شکار جمہوریت
گزشتہ ماہ صدر قیس سعید نے ملک پر صدارتی فرمان کے ذریعے حکمرانی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر لی ہے۔ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے فرمان کے ذریعے ملک پر حکومت کریں گے۔ اس کے مطابق ارکان پارلیمان کو جو مراعات اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے جو استثنیٰ حاصل تھا اسے بھی واپس لے لیا گیا ہے۔
اس سے قبل انہوں نے 25 جولائی کو وزیر اعظم ہشام مشیشی کو ان کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور ہنگامی طور پر تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔
سعید قیس دعوی کیا تھا کہ ان کے یہ اقدامات ملک کی سلامتی کے لیے بہت اہم ہیں اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے آئین کے عین مطابق ہیں۔
صدر قیس سعید کی اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی جو کوشش تھی اسے سیاسی جماعتوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کبھی اسے تسلیم نہیں گریں گی۔ بعض جماعتوں نے ان کے اس اقدام کو بغاوت قرار دیا تھا۔
'ہارٹ آف تیونس' نامی جماعت اور اپوزیشن پارٹی کے ایک رہنما اسامہ الخلیفی نے بھی قیس سعید پر ''منصوبہ بند بغاوت'' کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا، ''ہم اس بغاوت کے خلاف قومی سطح پر صف بندی کی اپیل کرتے ہیں۔''
سن 2011 میں عرب بہاریہ کے بعد سے تیونس کا جمہوری سفر اچھا رہا ہے تاہم صدر قیس کے حالیہ اقدام سے جمہوری عمل کو دھچکا لگا ہے۔
ص ز / ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔