تیونسی خواتین پر غیرمسلموں سے شادی کی پابندی ختم کر دی گئی
16 ستمبر 2017![Tunesien Tunis Frauenbewegung Demonstration](https://static.dw.com/image/16275710_800.webp)
شمالی افریقی ملک تیونس کی حکومت نے اپنے صدر محمد الباجی قائد السبسی کی سفارش پر ملکی مسلمان خواتین پر غیر مسلم مردوں سے شادی کرنے پر عائد پابندی کو فوری طور پر ہٹا دیا ہے۔ قبل ازیں تیونس کے مردوں کو یہ اجازت حاصل تھی کہ وہ غیر مسلم خواتین سے شادی کر سکتے ہیں لیکن مسلمان عورتیں ایسا نہیں کر سکتی تھیں۔ صدر السبسی کا کہنا ہے کہ تیونس کو ایک جدید ریاست کی صورت دینے کی کوشش میں تمام امتیازی قوانین کو ختم کرنا اور رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا ضروری ہے۔
تیونسی مہاجرین کی جرمنی سے واپسی تیز بنانے کی کوشش
’ہر پانچ میں سے ایک عرب‘ نوجوان ہجرت کرنا چاہتا ہے، رپورٹ
’الجزئر، مراکش اور تیونس محفوظ ممالک‘، جرمن ایوان زیریں
تیونس کی فاطمہ بن غفریش ’ مس اسلامک ورلڈ‘
دسمبر سن 2014 سے تیونس پر محمد الباجی قائد السبسی کی صدارت میں قائم لبرل حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو اُن کی آزاد حکومتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ تیونسی حکومت کے ایک اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اب کسی بھی مسلمان عورت اور غیر مسلم مرد کے درمیان شادی کا آزادانہ طریقے سے اندراج یا رجسٹرڈ کیا جا سکتا ہے۔ تیونس میں مسلمان خواتین پرغیر مسلموں سے شادی کی پابندی سن 1973 میں عائد کی گئی تھی۔
یہ امر اہم ہے کہ تقریباً گزشتہ تین برسوں سے الباجی قائد السبسی کی حکومت نے صنفی امتیاز کی پالیسی کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ تیونس میں تقریباً سبھی ملازمت پیشہ شعبوں میں خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے اور مردوں کو خاص طور پر ترجیح دی جاتی ہے۔ السبسی حکومت وراثت کے قوانین میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش میں ہے اور ابھی تک وہ وراثت میں عورتوں کے لیے مساوی حقوق کی پالیسی کا اطلاق نہیں کر پائی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس حکومتی اعلان پر تیونس کے سبھی مسلمان حلقوں سے تعلق رکھنے والے علماء حکومت کی مخالفت کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں۔ ان علماء کا کہنا ہے کہ مذہبِ اسلام میں شادی کے قوانین میں ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ان علماء کے مطابق تیونس کا نظام انصاف اور عدالتی طریقہٴ کار بھی اسلامی شریعت کے اصولوں پر استوار ہے۔