تیونسی کوسٹ گارڈز نے 140 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا
شمشیر حیدر نیوز ایجنسیاں
2 اکتوبر 2017
شمالی افریقی ملک تیونس کی بحریہ نے بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ جانے کی کوشش کرنے والے قریب ڈیڑھ سو تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا۔
اشتہار
تیونسی کوسٹ گارڈز کے مطابق سینکڑوں تارکین وطن ملک کے جنوب مغرب میں جرجیس نامی علاقے کے ساحلوں سے خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم کا طویل سمندری راستہ عبور کر کے اٹلی جانے کی کوششوں میں تھے۔
تیونسی بحریہ نے بحیرہ روم میں ایک ایسی ہی کشتی میں سوار قریب ایک سو تارکین وطن کو ریسکیو کیا۔ یورپ جانے کی کوشش کرنے والے ان تارکین وطن کی کشتی میں سوراخ ہو گیا تھا جس کے بعد ان کی کشتی میں پانی بھرنا شروع ہو گیا۔
تیونسی کوسٹ گارڈز کرنل میجر خلیفہ چیلبانی کے مطابق ملکی بحریہ نے کشتی کی نشاندہی کیے جانے کے بعد فوری کارروائی کرتے ہوئے ڈوبتی ہوئی اس کشتی میں سوار 98 تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا۔
جرجیس کے ساحلوں کے قریب ایک دوسرے واقعے میں چار مختلف کشتیوں میں سوار ہو کر غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرنے والے تینتالیس تارکین وطن کو بھی ملکی نیوی کے جہازوں نے ڈوبنے سے بچایا۔
مہاجرین کی کشتی ڈوبنے کے ڈرامائی مناظر
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
10 تصاویر1 | 10
سن 2011 میں تیونس کے عوام اس وقت کے حکمران زین العابدین بن علی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے جس کے بعد بن علی کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا تھا۔ تیونس میں شروع ہونے والے اس انقلاب کے اثرات خطے کے دوسرے ممالک تک بھی پھیل گئے تھے اور اسے ’عرب اسپرنگ‘ کا نام دیا گیا تھا۔
انقلاب کے بعد دیگر ممالک کے برعکس تیونس میں کامیاب جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ تاہم گزشتہ چھ برسوں کے دوران جمہوری حکومتیں تیونسی نوجوانوں کو ملازمتیں اور روزگار فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کے باعث یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یورپی ممالک تیونس اور دیگر شمالی افریقی ممالک کو ’محفوظ‘ قرار دیتے ہیں اور ان ممالک سے معاشی وجوہات کی بنا پر یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو سیاسی پناہ نہیں دی جاتی۔
علاوہ ازیں لیبیا میں سختی کیے جانے کے بعد انسانوں کے اسمگلروں نے بھی تارکین وطن کو تیونسی ساحلوں سے یورپ کی جانب بھیجنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ صرف ستمبر کے مہینے میں تیونس سے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد ساڑھے پانچ سو سے زائد رہی تھی۔ جب کہ اس سے صرف ایک ماہ قبل اگست کے مہینے میں ان راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والوں کی تعداد صرف 170 تھی۔