تیونس کی ایک عدالت نے ملک کے اکیس اعلیٰ سیاستدانوں اور عہدیداروں کو 12 سے 35 برس تک قید کی سزا سنائی ہے۔ صدر قیس سعید پر الزام ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے عدلیہ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔
راشد غنوشی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت 'النہضہ' کے سرکردہ رہنما اور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ہیں، جنہیں چودہ برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے تصویر: Hasan Mrad/DeFodi Images/picture alliance
اشتہار
تیونس کی عدالت نے منگل کے روز حزب اختلاف کے سرکردہ رہنما راشد غنوشی سمیت کئی دیگر اعلیٰ سیاستدانوں اور عہدیداروں کو جیل بھیج دیا۔
ایک عدالت نے اجتماعی مقدمے میں مجموعی طور پر 21 افراد کو 12 سے 35 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں میں سے دس پہلے ہی حراست میں ہیں جبکہ گیارہ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔
ان رہنماؤں پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، اس میں دہشت گردی سے منسلک تنظیم میں حصہ لینے، تشدد پر اکسانے، حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے سمیت تیونس اور بیرون ملک دہشت گردی کے مقاصد کے لیے افراد کو بھرتی اور تربیت دینے جیسے الزام شامل ہیں۔
راشد غنوشی کے دفاعی وکلاء نے ایک بیان میں کہا، "تمام الزامات ایک خفیہ، گمنام گواہ کی جھوٹی اور متضاد گواہی پر مبنی تھے، جو اپنے بے بنیاد اور متضاد الزامات کے لیے کوئی بھی ثبوت پیش کرنے میں بھی ناکام رہے، اور بالآخر اس نے ان میں سے بیشتر الزامات کو واپس بھی لے لیا۔"
حزب اختلاف کی کن شخصیات کو جیل میں ڈالا گیا؟
راشد غنوشی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت 'النہضہ' کے رہنما اور پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر ہیں۔ البتہ صدر قیس سعید نے پارلیمان کو تحلیل کر دیا تھا۔ غنوشی کو 14برس کی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ وہ 2023 سے جیل میں ہیں اور انہیں اب تک الگ الگ مقدمات میں مجموعی طور پر 27 برس کے لیے تین سزائیں مل چکی ہیں۔
صدر قیس سعید نے سن 2021 میں منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا اور اس کے بعد سے وہ مخالف سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے تیزی سے کارروائی کرتے رہے ہیںتصویر: FETHI BELAID/AFP/Getty Images
84 سالہ اسلام پسند رہنما نے عدالت میں پیش ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ عدالتی نظام پر حکومت کا بہت زیادہ کنٹرول ہے۔
سابق انٹیلیجنس چیف کامل غیزانی، سابق وزیر خارجہ رفیق عبدالسلام اور راشد غنوشی کے بیٹے معاذ غنوشی کو 35 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ البتہ یہ لوگ پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔
مقامی ریڈیو اسٹیشن موزیک ایف ایم نے بتایا کہ سزا پانے والے دیگر افراد میں صدر قیس سعید کی سابق چیف آف اسٹاف نادیہ اکاشا بھی شامل ہیں۔
اشتہار
صدر کا اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن
صدر قیس سعید نے چھ سال قبل اقتدار سنبھالا تھا اور پھر 2021 میں منتخب پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ مخالف سیاسی آوازوں کو دبانے کے لیے تیزی سے کارروائی کرتے رہے ہیں۔
رواں برس اپریل میں ملک کے 66 سیاستدانوں، کاروباری شخصیات اور وکلاء کو 66 برس تک قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
کارکنوں اور حزب اختلاف کی شخصیات کا کہنا ہے کہ تیونس کی جمہوریت، جو سن 2011 کی عرب بہار کی بغاوتوں کے دوران پروان جڑھی تھی، تیزی سے کمزور ہو رہی ہے۔ حزب اختلاف کا الزام ہے کہ صدر سعید عدلیہ اور سکیورٹی فورسز کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
جبکہ سعید کا استدلال ہے کہ اشرافیہ میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔
ادارت: جاوید اختر
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔