مظاہرین صدر قیس سعید کی حکمرانی کو مسترد کرنے کے لیے بڑی تعداد میں باہر نکلے اور ان پر آمرانہ حکومت واپس لانے کا الزام لگایا۔ نیو سالویشن فرنٹ نے اس کی مخالفت کے لیے کئی جماعتوں کو متحد کیا ہے۔
اشتہار
تیونس میں اتوار کے روز ہزاروں لوگ صدر قیس سعید کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے خلاف اور جمہوریت کی واپسی کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی شامل تھے۔
نیشنل سالویشن فرنٹ نامی اتحاد کے تحت مظاہرین دارالحکومت تیونس کے بورجوئیبا ایونیو پر جمع ہوئے، جو مظاہروں کے لیے ایک مقبول مقام ہے۔ احتجاج کے دوران کئی طرح کے نعرے بلند کیے گئے مثلاً، ''ہم فتح حاصل کریں گے'' اور ''ہم متحد ہیں، منقسم نہیں ہوں گے۔''
گرچہ احتجاج سے پتہ چلتا ہے کہ عوام میں صدر کی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے، تاہم اس میں شرکاء کی تعداد توقع سے کم تھی۔ مظاہرین میں شامل بعض افراد نعرہ لگا رہے تھے ''ہم آئین کا احترام اور جمہوریت کی واپسی چاہتے ہیں۔''
اشتہار
صدر مخالف وسیع اتحاد
صدر قیس سعید نے گزشتہ برس جولائی میں اچانک ملک کی پارلیمنٹ کو معطل اور حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ پھر اس کے بعد اپنے خود کے حکم ناموں کے ذریعے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ہی، تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
وہ بارہا ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ یہ کوئی بغاوت تھی اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ ریفرنڈم کے ذریعے آئین کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ برسوں کے سیاسی طور پر مفلوج نظام اور معاشی جمود کی وجہ سے اس طرح کا اقدام بہت ضروری ہے۔
صدر قیس سعید کے خلاف نئے اتحاد میں اسلام پسند جماعت النہضہ سمیت پانچ سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ اس میں اب سول سوسائٹی گروپس اور آزاد سیاسی شخصیات بھی شامل ہوگئی ہیں۔
اتوار کو ہی ملک کے سابق آمر زین العابدین بن علی کے حامیوں کی طرف سے بھی ایک الگ احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ زین العابدین بن علی کو ایک دہائی قبل عرب بہار کے دوران معزول کر دیا گیا تھا۔
چونکہ بہت سے لوگ موجودہ سیاسی نظام پر صدر کی تنقید سے اتفاق کرتے ہیں، اس لیے قیس سعید کو اب بھی کچھ حمایت حاصل ہے، تاہم ایک ہفتہ قبل ان کے حق میں منعقد ہونے والے مظاہرے میں بہت ہی کم لوگ شریک ہوئے تھے۔
آمریت کی طرف واپسی کا خدشہ
تیونس کی معیشت اور حکومت کی مالی حالت بحران کا شکار ہیں اور اس وقت حکومت ایک امدادی پیکیج کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے بات چیت کر رہی ہے۔ اتوار کے روز مظاہرین میں سے کچھ نے صدر پر یہ بھی الزام لگایا کہ وہ ملک کو ''فاقہ کشی'' کی طرف لے جا رہے ہیں۔
قیس سعید قانون کے سابق پروفیسر ہیں، جو 2019 میں اقتدار میں آئے تھے۔ اس وقت سیاسی طبقے کے خلاف غم و غصہ بہت زیادہ تھا اور سبھی جماعتوں نے ان کی حمایت کی تھی۔
تاہم صدر نے نئے آئین کی تشکیل یا اس میں اصلاح کرنے کے لیے لوگوں کو شامل کرنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے اقدا مات کی مخالفت کر رہی ہے۔ بہت سے ماہرین نے متنبہ کیا ہے، اگر اس پر توجہ نہیں دی گئی تو ملک ایک بار پھر آمریت کے خطرناک راستے پل چل پڑے گا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔