تیونس: صدر کی عدلیہ پر سخت گرفت کے بعد احتجاجی مظاہرے
14 فروری 2022
تیونس کے صدر نے اپنے ایک حکم نامے سے خود ہی بہت سے عدالتی اختیارات حاصل کر لیے۔ وہ اب اپنی مرضی سے ججوں کی تقرری اور برطرفی کر سکتے ہیں۔ دارالحکومت تیونس میں اس کے خلاف ہزاروں شہریوں نے مظاہرہ کیا ہے۔
اشتہار
تیونس میں اتوار کے روز علی الصبح شائع ہونے والے ایک متنازعہ صدارتی حکم نامے کے بعد ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک کے صدر قیس سعید نے ایک نیا جوڈیشل واچ ڈاگ قائم کر کے عدلیہ سے متعلق تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ اس کے تحت انہیں ایسے تمام اختیارات حاصل ہو گئے ہیں کہ جس سے وہ بذات خود ججوں کی برطرفی، ان کی ترقی اور تقرری کے مجاز ہیں۔
گزشتہ برس ملکی پارلیمان تحلیل کرنے کے بعد سے ہی صدر قیس مختلف اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ہی اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب انہوں نے عدالتی اختیارات بھی حاصل کر لیے ہیں۔
اشتہار
مظاہرین کا عدلیہ کی آزادی کا مطالبہ
صدر کے تازہ حکمنامے کے سامنے آنے کے بعد ہی دارالحکومت تیونس میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ بہت سے مظاہرین قومی پرچم لہرانے کے ساتھ ہی نعرے بازی کر رہے تھے۔ مظاہرین نے بعض ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا، ''عدلیہ کو ہاتھ مت لگائیں!'' جبکہ ایک اور بینر پر لکھا تھا، ''ہماری جمہوریت کو بچاؤ!''
صدر نے عدلیہ کی سپریم کونسل کو برخاست کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کونسل کے سربراہ یوسف بو زخار نے اس حکم نامے کو، ''غیر آئینی قرار دیا جو عدلیہ کی آزادی کی ضمانتوں کو ختم کرتا ہے۔''
جمعرات کو قیس سعید نے کہا تھا کہ وہ ایسا حکم نامہ جاری کرنے جا رہے ہیں جس سے عدلیہ کی اعلیٰ کونسل مکمل طور پر تحلیل ہو جائے گی۔ یہ ججوں کی نگرانی کرنے والا ایک اہم قانونی ادارہ ہے اور صدر سے بالکل الگ آزادانہ طور پر کام کرنے والے باقی بچے آخری اداروں میں سے ایک تھا۔
ان کے اس اعلان کے بعد ججوں اور وکلاء نے پیلس آف جسٹس کے باہر احتجاج کیا۔ ادھر ایک نئے حکم نامے میں عدلیہ کے ارکان کو احتجاجی کارروائی میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
یہ حکمنامہ جمہوری عمل ختم کر سکتا ہے
صدر کے حکم کے مطابق اب 21 ارکان پر مشتمل ایک ''عارضی سپریم جوڈیشل کونسل'' قائم کی جائے گی۔ اس میں نو اراکین کی تقرری خود صدر کے ذریعے ہو گی اور ان سب کو ''عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے'' حلف بھی اٹھانا ہو گا۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے ریجنل ڈائریکٹر سعید بن عربیہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس حکم نامے کی مدد سے، ''عدلیہ کو ایگزیکٹو کے ماتحت کام کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔''
بن عربیہ کا کہنا ہے، ''اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو یہ تیونس میں عدالتی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کے نظام کو پوری طرح سے ختم کر دے گا، اور اس کے ساتھ ملک میں جمہوری عمل کا تجربہ بھی ختم ہو جائے گا۔''(
گزشتہ برس جولائی میں تیونس اس وقت ایک آئینی بحران میں پھنس گیا تھا جب صدر قیس سعید نے ملک کی پارلیمنٹ کو معطل کر دیا۔ انہوں نے موجودہ وزیر اعظم کو برطرف کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے تمام اختیارات خود ہی حاصل کر لیے تھے۔اس وقت صدر نے کہا تھا کہ ان کے، ''غیر معمولی اقدامات'' کا مقصد تیونس کو تباہی سے بچانا ہے۔
صدر کے حامیوں نے تیونس کے پورے سیاسی نظام کو بدعنوان قرار دیتے ہوئے ان کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو آمرانہ حکمرانی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔